نام: حضرت سید علی المعروف بہ سید بابا رحمۃ اللہ علیہ
والد کا نام: سید حیات علی
والدہ کا نام: فاطمہ
ولادت: ۱۰۳۶ھ، کلکتہ۔ ہندوستان
نسبت: سلسلہ عالیہ مداریہ
لقب و شہرت: سید بابا، قطب وقت، عارف باللہ
اولاد: سید اکبر علی (نسل انہی سے چلی) سید اصغر علی (لاولد رہے) تسکین فاطمہ
مرشد: حضرت خواجہ سید محمود ثانی رحمۃ اللہ علیہ سجادہ نشین مکن پور شریف
زندگی کا خاص وصف: زہد و تقویٰ، فقر و استغنا، کشف و کرامات، خدمتِ خلق
وصال: ۲۷ جمادی الاول ۱۱۱۸ھ، کلکتہ۔ ہندوستان
ولئ كامل عارف باللہ حضرت سید علی الملقب سید بابا رحمۃ اللہ علیہ اپنے دور کے قطب وقت اور رفیع اور فیض رسان خلق گزرے ہیں۔ موصوف سلسلہ عالیہ مداریہ سے نسبت رکھتے ہیں۔ ہندوستان کے مشہور شہر کولکاتہ میں آپ کی ولادت با سعادت ہوئی۔ آپ کے والد ماجد کا اسم گرامی سید حیات علی اور والدہ معظمہ کا نام … فاطمہ تھا۔ آپ کا خاندان محلہ خضر پور کلکتہ میں ہمیشہ با عظمت سمجھا گیا۔
آپ کی ابتدائی تعلیم والد محترم کے زیر سایہ ہوئی والد کے انتقال کے بعد والدہ محترمہ نے مدرسہ میں داخل کرایا۔ یہاں آپ نے اساتذہ کی خدمت میں رہ کر علوم کی تحصیل فرمائی۔ علوم ظاہری کی تحصیل سے فراغت کے بعد علوم باطن کی طرف متوجہ ہوئے۔
آپ کا اسم گرامی سید علی ہے۔ اک عمر متاہل زندگی گزارنے کے بعد جب آپ نے تجرید و ترک کی زندگی اختیار کی اور مخلوق خدا پر آپ کا فیضان ہوا تو عوام و خواص آپ کو سید بابا کہنے لگے۔ اور آج تک حضرت اسی لقب سے مشہور چلے آئے ہیں۔
تحصیل علوم ظاہری کے بعد آپ کی والدہ ماجدہ نے شادی فرمادی۔ آپ سے دو صاحبزادے اور ایک صاحبزادی پیدا ہوئی۔ بڑے صاحب زادے کا اسم گرامی سیدا کبر علی اور پسر اصغر کا اسم پاک اصغر علی اور صاحبزادی کا نام تسکین فاطمہ تھا۔ سید اصغر علی لاولد ر ہے۔ اور سیدا کبر علی سے آپ کی نسل چلی۔
حضرت سید بابا تلاشِ حق کے جذبہ سے متاثر ہو کر مشاہدۂ حق میں اس قدر مست و بیخود ہوئے کہ اپنی بھی خبر نہ رہی جب ہوش آتا نعرہ حق بلند کرتے اور پھر مشاہدہ حق میں گم ہو جاتے۔ ایک عرصہ انہیں کیفیات میں گزارا ۔ مگر منازل سلوک کی حدیں نہ مل سکیں۔ آپ نے منازل سلوک و معرفت کے فرمانے کے لئے ایک مرشد کامل کی اشد ضرورت محسوس کی نتیجتاً وطن عزیز کو خیر باد کہا۔ متعدد خانقاہوں پر حاضری دی اور مشائخین کرام کی صحبت میں رہے مگر کہیں بھی تسکین قلب و روح نہ ہوئی۔ خدا پر شاکر رہے۔ نہ مایوس ہوئے اور نہ ہمت ہاری۔ حالت سفر میں کسی بزرگ نے حضرت سید بدیع الدین قطب الاقطاب قطب المدار رحمۃ اللہ علیہ کے آستانہ عالیہ پر حاضری کا اشارہ فرمایا کہ سید علی وہیں تمہارا حصہ ہے۔ خواب سے بیدار ہوتے ہی بیتابانہ صعوبت سفر برداشت کرتے ہوئے دارالنور مکن پور شریف پہونچ کر حاضر آستانہ حضرت قطب المدار ہوئے۔ روضہ مقدسہ کی زیارت کا شرف حاصل ہوا تو دیر تک مزار اقدس کی جالیوں کے نزدیک مراقب رہے۔ دل کو حقیقی سکون نصیب ہوا۔ اور آپ نے سمجھ لیا کہ میری آرزوؤں کے پورا ہونے کا وقت آگیا ہے۔
حضرت خواجہ محمود ثانی رحمتہ اللہ علیہ اس دور کے امام روحانیت اور سلسلہ مداریہ کے سجادہ نشین تھے۔ حضرت سید بابا ان کی خدمت میں باریاب ہوئے۔ خواب میں جو اشارہ ملا تھا اس کی تکمیل ہوئی۔ سید بابا نے اپنی طلب و ارادت کی خواہش ظاہر فرمائی۔
حضرت خواجہ سید محمود نے حضرت سید بابا کی طلب صادق کو دیکھ کر اور انہیں پابند شریعت مطہرہ پاکر حلقہ ارادت میں داخل فرمایا۔ اور نسبت خاندانی طیفوریہ مداریہ سے سرفراز فرما کر خلافت عطا فرمائی۔ خاندانِ عالیہ مداریہ کے اوراد و اعمال و اشغال و اذکار تعلیم فرمائے۔ اور اپنی نگرانی میں ان کی تکمیل فرمائی۔ اور ہدایت فرمائی کہ جو امانت پیران سلاسل کی تمہیں ودیعت کی گئی ہے اس کی حفاظت تم پر فرض ہے۔ خدمت خلق کا جذبہ خدائے تعالیٰ کو محبوب ہے، اللہ کی مخلوق سے حسن سلوک لازم ہے۔ اس لئے کہ ان میں بیشتر اہل نجات ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی بدولت ہم جیسوں کا بھی اہل نجات میں شمار کر لیتا ہے۔ اپنے علم وفن پر فخر بے سود ہے، بحث و مباحثہ کو شعار نہ بنا لینا اس لئے کہ اللہ تعالیٰ جس قوم سے ناخوش ہوتا ہے اس پر بحث کا دروازہ کھول دیتا ہے اور عمل کا دروازہ بند کر دیتا ہے۔ منازل سلوک میں حرج واقع ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد وطن جانے کی اجازت عطا فرمائی ۔ حضرت سید بابا نے عرض کیا حضور کلکتہ بہت بڑا شہر ہے۔ وہاں علمائے ظاہر و باطن بہت ہیں۔ ان کے درمیان ہمارا کیا مقام ہے حضرت خواجہ نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ نے تمہیں وہاں کے لیے مخصوص فرمالیا ہے۔ باری تعالی تمہیں وہاں امتیازی شان عطا فرمائے گا۔
ہدایت مرشد کے مطابق حضرت سید بابا رحمۃ اللہ علیہ دارالنور مکن پور شریف سے رخصت ہو کر وطن پہونچے مکان میں داخل ہو کر والدہ ماجدہ کے قدم بوس ہوئے۔ ماں کی آہوں میں از راہ شفقت آنسو آ گئے۔ سفر کے حالات دریافت کئے۔ کامیابی و کامرانی کی دعائیں دیں۔ وطن پہونچنے کی خبر جب عام ہوئی تو آپ سے ملاقات کا شرف حاصل کرنے کے لئے جوق در جوق خلق خدا کا ہجوم ہونے لگا۔ مرشد کی نسبتوں کا آپ پر ایسا اثر ہو چکا تھا کہ آپ کے حالات یکسر بدل گئے تھے۔ اکثر حضرات آپ کو پہچان نہ سکے۔ دل میں محبت رسول کے انوار تھے اور روح میں عشق الہی کی تڑپ آپ کے گفتار سے ظاہر تھی۔ مرشد کی روحانی توجہ اور ہدایت کے اثرات رنگ لائے۔ تھوڑے ہی عرصہ میں منازل سلوک طے ہوگئیں۔ آپ کے کشف وکرا کرامات کا سکہ لوگوں کے دلوں پر بیٹھنے لگا۔ سرزمین بنگال کے صاحبانِ علم و دانش اور مہروان معرفت آپ کی خدمت میں حاضر ہونے لگے اور آپ کی خدمت میں فیوض و برکات حاصل کرنے لگے۔
حضرت سید بابا رحمۃ اللہ علیہ کے والد ماجد کا وصال تو بچپن ہی میں ہو گیا تھا۔ آپ کی والدہ معظمہ نے بڑی مشقتوں سے آپ کی پرورش اور تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا۔ عمر طویل ہو چکی تھی اچانک علیل ہو گئیں اور علاج کے باوجود روبہ صحت نہ ہو سکیں۔ داعی اجل کو لبیک کہنے سے پہلے حضرت سید بابا رحمۃ اللہ علیہ سے ارشاد فرمایا۔ تم نے میری بڑی خدمت کی ہے میں تم کو خدائے تعالی کے سپرد کرتی ہوں کہ پروردگار عالم تمہیں دارین میں سر بلندیاں عطا فرمائے اور نعمت عرفان سے مالا مال کرے۔ یہ دعا فرما کر ہمیشہ کے لیے رخصت ہو گئیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
ماں کی شفقتوں سے محرومی کا صدمہ جانکاہ ہوا مگر حضرت کے استقلال میں فرق نہ آیا۔ مرضی الہی پر صابر و شاکر رہے۔ ماں کی دعاؤں کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے آپ کے درجات کو بلند فرمایا اور آپ قطب وقت کے درجہ پر فائز ہوئے جو مدارج ولایت میں بہت بلند مقام ہے۔
آپ کشف و کرامات اور اپنے زمانہ کے قطب تھے۔ بظاہر کوئی ذریعہ معاش نہ تھا۔ البتہ شہر میں چند مکانات تھے۔ جس کے کرایہ پر قانع زندگی گزارتے تھے اور شکر تعالیٰ ادا کرتے تھے۔ دنیا کو فانی سمجھ کر اس سے بے نیاز رہتے تھے۔ تمام عمر سادگی و توکل میں بسر ہوئی۔ علمائے کرام ، مشائخ عظام اور تمام مہمانوں کی بے حد تواضع فرماتے تھے۔ عبادت وریاضت زہد و تقویٰ علم و بردباری میں یکتائے روزگار تھے۔ کمالات ظاہری میں بے نظیر نام و نمود سے نفرت کرتے اور فقر وفاقہ پسند فرماتے تھے غربا و مساکین کی ہر طرح خدمت کرنا اپنا فرض عین سمجھتے تھے۔ اور بلند امتیاز خواص و عوام سے حسن وسلوک سے پیش آتے تھے۔ ساری عمر مجاہدہ و مجادلہ میں گزاری۔ حقائق و معارف کی وہ باتیں بیان کرتے تھے کہ اہل عرفان کو حیرت ہوتی تھی۔ فرائض و واجبات ، سنن مؤکدہ اور نماز تہجد پابندی سے ادا کرتے تھے۔ اور نوافل کی کثرت فرماتے تھے۔ آپ کی ذات ستودہ صفات سے مشرقی و مغربی بنگال میں دین محمدی صلی اللہ علیہ وسلم اور سلسلہ مداریہ کی بیحد اشاعت ہوئی۔ آج بھی صوبہ جات بہار وبنگال میں سلسلہ عالیہ مداریہ کے لاکھوں حلقہ بگوش نسبت روحانی سے مالا مال نظر آتے ہیں۔ ان کی خدمت اقدس میں ہر مذہب وملت کے افراد اپنی اپنی حاجتیں پیش کرتے تھے۔ نامراد آتے اور بامراد واپس جاتے تھے۔ آپ جس کے لئے بھی جو دعا فرماتے پروردگار عالم اسے شرف قبولیت سے نوازتا تھا۔
ایک بار بنگال میں بارش نہ ہونے کی وجہ سے قحط کے آثار نمودار ہوئے۔ فصلیں تباہ ہو گئیں۔ غلہ کمیاب بلکہ نایاب ہو گیا۔ مخلوق خدا فاقوں سے مرنے لگی۔ شہر کے لوگ مجتمع ہو کر حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بارش کے لئے پروردگار عالم سے دعا کرنے کی درخواست کی کہ مخلوق خدا کو پریشان دیکھ کر آپ کی روح تڑپ اٹھی۔ آپ نے یہ کہہ کر دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے کہ اے خالق کا ئنات تو ہمارا خالق و مالک ہے تو نے ہم کو اپنی مرضی سے پیدا فرمایا۔ ہماری مرضی سے نہیں ہمارا ظاہر و باطن تجھ سے پوشیدہ نہیں۔ تو خوب جانتا ہے کہ میں ایک گنہ گار بندہ ہوں احساس شرمندگی و ندامت کا بوجھ لئے تیرے در پر حاضر ہیں۔ اپنی مخلوق پر رحم کر اپنے محبوب احمد مجتبیٰ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے میں بارانِ رحمت نازل فرما۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا کو قبول فرمایا۔ بارش ہونے لگی۔ اور ایسی دھواں دھار بارش ہوئی کہ لوگوں کو گھر جانا دشوار ہو گیا۔ بنگال کا سارا علاقہ سیراب ہو گیا۔ لوگ خوشی خوشی آپ کے قدمبوسی ہوکر واپس ہو گئے۔ سارے بنگال میں آپ آپ کے فضل و کمال و بزرگی کی شہرت عام ہو گئی۔
پروردگار عالم جنہیں اپنا محبوب اور دوست بنالیتا ہے انہیں دوسری مخلوق پر امتیازی شان عطا فرمانے کے لئے کچھ ایسی مافوق الفطرت طاقتوں کا مالک بنا دیتا ہے جو عوام الناس کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتی ہیں۔ انہیں طاقتوں کا ظہور جب انبیاء کرام سے ہوتا ہے تو وہ معجزہ کہلاتا ہے اور جب کسی ولی کامل سے یہ ظاہر ہوتی ہیں تو کرامت کہلاتی ہیں۔
ایک مرتبہ آپ کا ایک عقیدتمند چند سال آپ کی خدمت میں رہا لیکن اس کے حالات و کیفیات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ ایک دن دل ہی دل میں سوچنے لگا کہ اگلے دور کے ایسے باکمال بزرگ نظر نہیں آتے سید بابا رحمۃ اللہ علیہ پر یہ بات منکشف ہو گئی۔ آپ نے فرمایا کہ آج بھی ایسی ہستیاں موجود ہیں جن کی ذراسی توجہ سے ولایت کا مرتبہ حاصل ہو جاتا ہے۔ یہ بات منہ سے نکلی تھی اسی وقت اس عقیدتمند کے حالات میں نمایاں تبدیلی واقع ہوئی اور اعلیٰ مرتبہ و مقام کا حامل بن گیا۔
ایک بنگالی سحر و ساحری و کہانت میں اپنا ثانی نہیں رکھتا تھا۔ ایک روز آپ کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر کہنے لگا۔ کچھ کمال میں اپنا دکھاؤں اور کچھ کمال آپ اپنا دکھائیے۔ آپ کو اس کی یہ گستاخی ناگوار گزری اور آپ نے اس کے ساحرانہ کمالات سلب کر لیے۔ وہ دیوانہ وار جنگلوں میں پھرتا رہا۔ مجبور ہو کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اپنی گستاخی کی معافی چاہی۔ افعال بد سے توبہ کی اور آپ کے دست حق پرست پر بیعت ہوا۔ آپ نے اس کا نام نصر اللہ رکھا۔
ایک دن آپ کی خدمت میں ایک ضعیفہ زار و قطار روتی ہوئی حاضر ہوئی۔ عرض کی کہ میرا ایک ہی بچہ ہے جو عرصہ سے بیمار ہے آخری سانسیں گزار رہا ہے خدا کے لئے آپ توجہ فرمائیں تو مجھے یقین ہے کہ میری ضعیفی کا سہارا دنیا میں دائم و قائم رہے گا۔ ضعیفہ کی مایوسی و خستہ حالی پر آپ کو ترس آیا۔ مکان پر تشریف لے گئے۔ لڑکا موت کی ہچکیاں لے رہا تھا آپ نے بارگاہ رب العزت میں اُس کی صحت کے لئے دعا فرمائی۔ چند ہی لمحے گزرے تھے کہ لڑکا صحت یاب ہوا اور ایسا ہو گیا جیسے کبھی بیمار تھا ہی نہیں ضعیفہ کی خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا لڑکا اٹھ کر قدموں پر گر پڑا۔
ایک دن آپ کے پاس ایک سادھو آیا۔ آپ دریا کے کنارے تشریف فرما تھے۔ سادھو نے آپ کی خدمت میں ایک چھوٹی سی شیشی پیش کی۔ آپ نے دریافت کیا اس میں کیا ہے۔ اس نے جواب دیا کہ اس میں اکسیر ہے اور اس اکسیر کی صفت یہ ہے کہ اس کو تانبہ پر لگا دیا جائے تو تانبہ سونا بن جائے۔
سید بابا رحمتہ اللہ علیہ نے اس اکسیر کی شیشی کو ندی میں ڈال دیا اور فرمایا کہ انسان تو خود ایک اکسیر ہے کسی دوسری اکسیر کی تدبیر کرنا انسان کی توہین و تحقیر ہے۔ سادھو کو بہت رنج ہوا۔ اور کہنے لگا آپ نے میری تمام عمر کی محنت ضائع کر دی۔ آپ نے سادھو سے دریافت کیا کہ اکسیر کیسی ہوتی ہے جواب دیا جیسی خاک ہوتی ہے۔ آپ نے دریا کی ریت اٹھا کر فرمایا دریا کی ریت بھی اکسیر ہے۔ لے جاؤ اور سونا بناؤ۔سادھو کو یقین نہیں آیا لیکن اس نے آزمائش کے لیے دریا کی ریت اٹھا کر تانبہ پر ملی تانبہ سونا بن گیا۔ سادھو آپ کی یہ کرامت دیکھ کر مشرف بہ اسلام ہو گیا۔ اور آپ کی خدمت میں رہنے لگا۔ آپ کی صحبت کے اثر سے درجہ کمال کو پہونچا۔
نورانی اقوال
فرمایا طالب صادق وہ ہے جو اپنے قلب وروح کی حفاظت کرے۔
فرمایا عشق ہر شئے کو اپنے اصل کی جانب رجعت کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔
فرمایا عشق کے بغیر تمام موجودات کو فنا اور عشق کے ساتھ تمام موجودات کو بقا لازم ہوتی ہے۔
فرمایا زندہ وہ ہے جس کا کوئی نفس یا دالہی سے غافل نہ ہو۔
فرمایا مردان خدا وہ ہیں جو صفات باری تعالی سے متصف ہو۔
فرمایا فقیر کی دولت دنیا کی ہر شئے سے بے نیاز کر دیتی ہے۔
حضرت سید بابا کا سن ولادت ۱۰۳۶ھ ہے۔ ہندوستان پر شاہجہاں کی حکومت تھی اور جب آپ منصب ولایت پر فائز ہوئے تو اورنگ زیب کی حکومت تھی۔ اورنگ زیب چونکہ سرکار قطب المدار سے خصوصی نسبت تھی آپ کی خدمت میں حاضر ہونا اپنی سعادت سمجھتے تھے۔ جب حضرت کے وصال کی خبر عاملان بنگال کو ہوئی تو جہاں لاکھوں بندگان خدا کا اژدہام تھا وہاں عاملان حکومت بنگال بھی تجہیز و تکفین میں شریک تھے۔
جب آپ کا وقت وصال آیا تو آپ نے اپنے صاحبزادے سید علی اکبر کو اپنا جانشین مقرر فرما کر ہدایت کی کہ خدمت خلق برابر کرتے رہنا اور وہ نعمات جو دربار قطب المدار سے مجھے عطا ہوئی تھیں اور جنہیں میں تمہیں تفویض کیے جا رہا ہوں ان کی حفاظت کرنا اور سلسلہ عالیہ مداریہ کی ترویج و اشاعت میں بہ دل کوشاں رہنا اور حاضری آستانہ کو اپنا فرض منصبی سمجھنا۔ یہ کہہ کر آپ نے کلمہ پڑھا اور جان , جانِ آفریں کو سپرد فرمادی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
حضرت کا وصال مبارک ۲۷ / جمادی الاول ۱۱۸ اھ میں ہوا۔
syed ali karnatak, syed baba madari karnatak






