بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للّٰہ! مکنپور شریف کی خاک، جسے بقعۂ نور کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا، ہمیشہ علم و عرفان، روحانیت و طریقت اور فقہ و شریعت کے ایسے ایسے آفتاب و ماہتاب سے منور رہی ہے جن کی تجلیات اقصائے عالم میں آج بھی ضوفشاں ہیں۔ اسی علمی و روحانی کارواں کے ایک درخشندہ اور روشن چراغ کا نام حضرت العلام، رئیس الفقہاء و المشائخ، مولانا سید تشریف حسن جعفری مداریؒ ہے جن کی شخصیت علم و فضل، حلم و بردباری، اخلاق و کردار، اور اخلاص و للٰہیت کا حسین مرقع تھی۔
آپ ٢٨ رمضان المبارک کو قطبِ عالم، غوثِ زماں، توقیر الاصفیا حضرت سید توقیر حسن رحمۃ اللہ علیہ کے گھر پیدا ہوئے اور ٤ جنوری ٢٠٢١، ١٩ جمادی الاول کو مکنپور شریف ہی میں وصال فرما گئے۔ آپ کی قبرِ مبارک بھی مکنپور شریف ہی میں ہے۔
آپ کا تعلق سادات کرام کے اس خانوادے سے تھا جو علم و عمل کا پیکر، دین و سنت کا علمبردار، اور سلسلۂ عالیہ مداریہ کا عظیم سرمایہ ہے۔ حضرتؒ نے جس انداز سے علمِ شریعت اور طریقت کی خدمت کی، وہ نہ صرف قابلِ تقلید ہے بلکہ آئندہ نسلوں کے لیے مشعلِ راہ بھی ہے۔ آپ کے خطبات میں جو تاثیر تھی، وہ دلوں کو جھنجھوڑتی، اور قلم سے نکلی تحریریں ذہنوں کو منور کر دیتی تھیں۔
علم کا پیکر، حلم کا پجاری
حضرت تشریف ملتؒ کی ذاتِ والا صفات میں جہاں فقاہت کی عظمت نظر آتی ہے، وہیں آپ کا اندازِ تخاطب، سادگی، تواضع اور خلوص بھی آپ کی شخصیت کو نمایاں کرتا تھا۔ میں نے بچپن میں آپ کو قریب سے دیکھا، سنا اور محسوس کیا۔ کبھی کسی سے تلخ لہجے میں بات کرتے نہ پایا۔ آپ کی نرم گفتاری ایسی تھی کہ اگر کوئی ایک مرتبہ گفتگو میں بیٹھ جاتا تو دیر تک بیٹھا رہتا۔ آپ کا ہر جملہ ایک درس، ہر لفظ ایک نصیحت، اور ہر بات ایک رہنمائی ہوتی تھی۔
ذاتی واقعہ: علم کی خیرات
میری عمر سترہ برس کے قریب تھی جب حضرت تشریف ملتؒ والد محترم کے ہمراہ ہمارے گھر تشریف لائے۔ میں نے مؤدبانہ عرض کیا
“چچا جان! جنازے کی نماز کس طرح ادا کی جاتی ہے؟”
آپؒ نے انتہائی محبت و شفقت کے ساتھ مکمل طریقہ سکھایا، اور دعائیں یاد کروائیں، جو آج تک میری یادداشت کا حصہ ہیں۔ آپ کا اندازِ تعلیم نہایت سادہ مگر پر اثر تھا۔ یہ ان کا تربیتی اسلوب تھا کہ علم صرف کتابی نہیں، عملی مشاہدے اور سلوک سے منتقل ہو۔
وصال کی خبر اور دل سوز صدمہ
ایک دن کھیل کود میں مصروف تھا کہ ایک قریبی دوست کی کال آئی۔ اس نے خبر دی
“تمہارے چچا کا انتقال ہو گیا۔”
یہ جملہ میرے لیے بجلی بن کر گرا۔ میں نے اسے مزاق نہ کرنے کی تاکید کی، مگر جب انکے گھر پہنچا تو منظر دیکھ کر حواس باختہ ہو گیا۔ واقعی حضرت تشریف ملتؒ اس دنیا سے رخصت ہو چکے تھے۔
انا للّٰہ و انا الیہ راجعون۔
جب غسل کے بعد جنازہ تیار کیا گیا، تو جس نے بھی آپ کا چہرہ دیکھا، بے ساختہ سبحان اللہ اور ماشاء اللہ کے نعرے لبوں پر جاری ہو گئے۔ وہ چہرہ جو علم و عمل کا مظہر تھا، اُس میں ایسی نورانیت تھی جو وفات کے بعد بھی باقی رہی۔ ایسے ہوتے ہیں اہلِ معرفت و ولایت کے چہرے۔
دوستی کا وہ نادر نمونہ
آپؒ میرے والد گرامی افقہ الفقہاء، مفکرِ اسلام، فاتحِ نیپال، مفتی سید نثار حسین جعفری مداری دامت برکاتہم کے نہایت قریبی اور ہم مزاج رفیق تھے۔ ان کی دوستی مثالی، بے غرض اور خالص دینی رشتہ تھی۔ جب ان کی دوستی کے قصے سنائے جاتے ہیں، تو ہر سننے والا رشک کرتا ہے کہ واقعی ایسی محبت خالص اولیاء ہی کے نصیب میں آتی ہے۔
یادِ رفتگاں اور تسلسلِ فیض
آج بھی جب کبھی حضرت تشریف ملتؒ کی تصویر نگاہوں کے سامنے آتی ہے تو دل پکار اٹھتا ہے
تیرے جانے کے بعد جانا ہے
زندگی ہے سفر اُداسی کا
لیکن یہ رشتہ محض دنیاوی نہ تھا، یہ تعلق آج بھی زندہ ہے۔ حضرتؒ کے فرزندِ ارجمند مولانا سید عابد حسن جعفری مداری صاحب نہ صرف میرے بڑے بھائی ہیں بلکہ میرے محسن، مربی اور دوست بھی ہیں۔ ان میں اپنے والد گرامی کے اخلاق، سنجیدگی، اور علمی وقار کی جھلک نمایاں ہے۔
اللہ تعالیٰ حضرت تشریف ملتؒ کی قبر کو نور سے بھر دے، ان کے درجات بلند فرمائے، اور ان کے خانوادے کو دین و سنّت کی خدمت کے لیے سلامت رکھے۔
اللّٰہم اغفر لہ، وارفع درجتہ، و اجعل قبرہ روضۃً من ریاض الجنۃ۔
آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔
از: شہزادئے حضور افقہ الفقہاء سید رضی الحسین جعفری مداری




