ضیاء شمس و قمر ہے مدار عالم کی
یہ شام اور یہ سحر ہے مدار عالم کی
سدا جمال رخ مصطفی پہ رہتی ہے
بلند کتنی نظر ہے مدار عالم کی
جسے بھی چاہیں ولایت سے سرفراز کریں
نگاہ میں وہ اثر ہے مدار عالم کی
نہ چھو سکیں گے زمانے کے حادثات اسے
پناہ میں جو بشر ہے مدار عالم کی
یقین وہ رہِ حق سے بھٹک نہیں سکتا
وہ جس پہ خاص نظر ہے مدار عالم کی
مداریوں کے دلوں میں تو ڈھونڈ اے محضر
تجھے تلاش اگر ہے مدار عالم کی