madaarimedia

ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ محبوب خدا ہو

 ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ محبوب خدا ہو

لیکن یہ خدا جانے کہ تم کون ہو کیا ہو


کچھ مجھ کو بھی سرکار کے صدقہ میں عطا ہو

سرکار مرے آپ کی عترت کا بھلا ہو


قرآن بھی جب کرتا ہے توصیف محمد

پھر کیسے بھلا نعت کا حق ہم سے ادا ہو


وہ کیوں ہو کسی نعمت کونین کا طالب

سرکار مدینہ کے جو ٹکڑوں پہ پلا ہو


جلتے ہوئے سورج کی شعاعوں کا اثر کیا

جب سایہ فگن دامن محبوب خدا ہو


بس تھوڑی سی خاک در سرکار اڑا لا

اتنا تو کرم مجھ کبھی باد صبا ہو


ممکن ہی نہیں اس کو جلا پائے جہنم

جو آتش فرقت میں مدینے کی جلا ہو


جبریل کو کس طرح سے عرفان ہو تیرا

سمجھے وہ تجھے جو ترے رتبے سے سوا ہو


سرکار اسے آپ کا کہتی ہے یہ دنیا

محضر سے یہ زنجیرۂ نسبت نہ جدا ہو
 ——

شاہ کار قدرت ہے آمنہ کی گودی میں

 شاہ کار قدرت ہے آمنہ کی گودی میں

دو جہاں کی رحمت ہے آمنہ کی گودی میں


آدمی پہ بھاری ہے لمحہ لمحہ ہستی کا

وقت کی ضرورت ہے آمنہ کی گودی میں


ظلمت جہالت کا کیوں نہ دل دھڑک اٹھے

نور علم وحدت ہے آمنہ کی گودی میں


جلوہ ریزیاں جس کی ہیں جبینِ آدم میں

حق کی وہ امانت ہے آمنہ کی گودی میں


آج ہوگیا پورا سلسلہ نبوت کا

خاتم رسالت ہے آمنہ کی گودی میں


لگتا ہے سمٹ آئی کائنات مرکز پر

آج کتنی وسعت ہے آمنہ کی گودی میں


عرش و فرش سب اس کے دائرے کے اندر ہیں

نقطۂ محبت ہے آمنہ کی گودی میں


حسن یوسفی جس کا اک جمیل پر تو ہے

وہ حسین صورت ہے آمنہ کی گودی میں


زندگی کو جینے کا راستہ ملا محضر

حاصل شریعت ہے آمنہ کی گودی میں
 ——

اب دل کی تمنا ہے مدینے کی طرف چل

 اب دل کی تمنا ہے مدینے کی طرف چل

اک حشر سا برپا ہے مدینے کی طرف چل


دنیا ستم آرا ہے مدینے کی طرف چل

کوئی نہیں اپنا ہے مدینے کی طرف چل


روضہ کا وہ سرکار کے پر نور نظاره

نظروں میں مچلتا ہے مدینے کی طرف چل


اس در پہ سکوں پائے گا کیوں اے دلِ مضطر

دنیا میں بھٹکتا ہے مدینے کی طرف چل


دنیا کے نظاروں سے بہلتا ہی نہیں دل

نظروں کا تقاضہ ہے مدینے کی طرف چل


ہر سمت سے آتی ہیں درودوں کی صدائیں

ماحول کا منشاء ہے مدینے کی طرف چل


کیوں محضر علی خانۂ صابو میں پڑا ہے

آقا نے بلایا ہے مدینے کی طرف چل
 ——

جو دل میں نبی کی محبت نہیں ہے

 جو دل میں نبی کی محبت نہیں ہے
تو کوئی عبادت عبادت نہیں ہے

ہوا ہے جو دیوانہ عشق نبی میں

اسے ہوش کی پھر ضرورت نہیں ہے


مدد میرے آقا کہ دریائے غم سے

کوئی پار اترنے کی صورت نہیں ہے


دل و جاں محمد کی صورت پہ صدقہ

کوئی ایسی خلقت میں صورت نہیں ہے


زمین و فلک چاند سورج ستارے

محمد کی کس پر حکومت نہیں ہے


یہ فرمادیں آقا مدینہ بلا کے

تجھے واپسی کی اجازت نہیں ہے


در مصطفیٰ پہنچ جائے محضر

سوا اس کے اب کوئی حسرت نہیں ہے
 ——

آئے شاہ امم آئے شاہ امم

 دور کرنے زمانے سے ظلم و ستم

آئے شاہ امم آئے شاہ امم

خشک دھرتی پہ برساتے ابر کرم

آئے شاہ امم آئے شاہ امم


شرک و بدعت کا جب ہر طرف راج تھا

ماہ و انجم کو سمجھا گیا دیوتا

جب خدا بن گئے پتھروں کے صنم


آئے شاہ امم آئے شاہ امم


قصر کسری پہ طاری ہوا زلزلہ

سر بسجدہ ہوئے پتھروں کے خدا

کہہ اٹھے جھوم کر عرش ولوح و قلم


آئے شاہ امم آئے شاہ امم


راج جبر و ستم کا جہاں سے مٹا

مل گئی گمرہی کو صراط خدا

ہو گئے ہر مصیبت سے آزاد ہم


آئے شاہ امم آئے شاہ امم


آج علم و فضیلت کو جاں مل گئی

آج قرآن حق کو زباں مل گئ

آج کی صبح توڑا جہالت نے دم


آئے شاہ امم آئے شاہ امم


مٹ چکی تھی زمانے سے انسانیت

نام باطل کا محضر تھا حقانیت

وہ تو کہیے خدا نے کیا یہ کرم


آئے شاہ امم آئے شاہ اممa
 ——

جھکی آقا کے قدموں پہ جبیں معلوم ہوتی ہے

 جھکی آقا کے قدموں پہ جبیں معلوم ہوتی ہے

یہ رفعت قسمت روح الامیں معلوم ہوتی ہے


محبت آپ کی دل میں مکیں معلوم ہوتی ہے

مری تقدیر بھی سدریٰ نشیں معلوم ہوتی ہے


جہاں پہ رکھ دئے ہیں پاؤں سرکار رسالت نے

زمیں وه نازش عرش بریں معلوم ہوتی ہے


کرم بے کس پہ فرما دیجئے آقا کہ طیبہ تک

رسائی کی کوئی صورت نہیں معلوم ہوتی ہے


دیار نور سے نزدیک تر ہم آگئے شاید

جھکی فرط عقیدت سے جبیں معلوم ہوتی ہے


اسی سے ماہ وانجم اکتساب فیض کرتے ہیں

مدینے کی زمیں بھی کیا زمیں معلوم ہوتی ہے


نگاہ غور سے دیکھو تو کوئی بھی عبادت ہو

ادائے رحمۃ اللعالمیں معلوم ہوتی ہے


کرم یہ نسبتِ سرکار کا ہے جو تجھے محضر

مدینے کی ہر اک شے دل نشیں معلوم ہوتی ہے
 ——

وہ گیسو احمد معنبر معنبر

 وہ گیسو احمد معنبر معنبر

مدینے کی گلیاں معطر معطر


مدینے میں ہے چشم و دل کا یہ عالم

مجلہ مجلہ منور منور


جسے سن کے کلمہ پڑھیں سنگریزے

وہ ہے گفتگوئے موثر موثر


رسول معظم کے آنے سے پہلے

تھا ماحول کتنا مکدر مکدر


تلاش دیار نبی میں پھرا ہوں

بیاباں بیاباں سمندر سمندر


ہوئی جس کی تخلیق ہے اول اول

وہی ذات عالی موخر موخر


ہے آنکھوں میں محضر جمال مدینہ

بنا اب ہمارا مقدر مقدر
 ——

بے سہارا تھے ہم آسرا مل گیا

 بے سہارا تھے ہم آسرا مل گیا

یعنی دامان خیر الورى مل گیا


اب کسی رہنما کی ضرورت نہیں

مجھ کو سرکار کا نقش پا مل گیا


میری آوارہ پائی ہوئی مطمئن

جب سے شہر حبیب خدا مل گیا


کم ہے جو ناز قسمت پہ امت کرے

باعث نازش انبیاء مل گیا


کیا کہے بد نصیبی ابو جہل کی

کوئی پوچھے عمر سے کہ کیا مل گیا


سو گئے مطمئن ہو کے شیر خدا

جب انہیں بستر مصطفیٰ مل گیا


ہیں غریبوں کی جھرمٹ میں جلوہ فگن

ہم کو آقا کا محضر پتہ مل گیا
 ——

ہے جہاں بر سر پیکار مدینے والے

 ہے جہاں بر سر پیکار مدینے والے

آپ ہی ہیں مرے غمخوار مدینے والے


فکر کونین سے آزاد نظر آتا ہے

آپ کے غم کا گرفتار مدینے والے


کاش ہو جائے میسر ترا دیدار جمال

تشنہ لب ہیں ترے میخوار مدینے والے


موتی برساتا ہی رہتا ہے تیرا ابر کرم

ترا دربار ہے دربار مدینے والے


اپنا مقصود نظر کیوں نہ اسے مل جائے

ہو جسے آپ کا دیدار مدینے والے


ہوں گے محروم نہ محشر میں بھی انشاء اللہ

تیری رحمت کے طلبگار مدینے والے


عرض کر پیش مسیحائے دو عالم محضر

ہم بھی ہیں آپ کے بیمار مدینے والے
 ——

دل کو طواف گنبد خضری سکھائیں گے

 دل کو طواف گنبد خضری سکھائیں گے

ہم خانۂ خدا کو مدینہ بنائیں گے


رسوا نہ ہونے دیں گے وہ میدان حشر میں

دامن میں اپنے رحمت عالم چھپائیں گے


مشکل ہے نعت گوئی مگر یہ یقین ہے

آقا سنبھال لیں گے جو ہم ڈگمگائیں گے


ہر لب پہ ہوگا تحفہ درود و سلام کا

نعت رسول پاک جو ہم گن گنائیں گے


جب تک سوار دوش رہیں گے حسین پاک

سجدے سے سر نہ رحمت عالم اٹھائیں گے


ہنس ہنس کے جان دیتے ہیں دیوانۂ رسول

جب سے سنا ہے قبر میں سرکار آئیں گے


پہنچے گا یہ بھی پاک کھجوروں کے سایے میں

محضر کے بھی نصیب کبھی جگمگائیں گے
 ——

Top Categories