تصوف او سلسلہ مداریہ

آج کے اس ترقی یافتہ اور مادی دور میں بھی جب ہزاروں چیلیجز ہمارے سامنے ہیں اگر ہم نے تصوف اور اسکی معنویت کو نہیں سمجھا اور اسے اپنی زندگی میں نہیں اتارا تو دین کی ان متوازی قدروں کی تکمیل نہ کرنے کے سبب ہم دعوت و تبلیغ میں کامیاب ہوسکیں گے اور نہ ہی کامل طور سے دین میں داخل ہو سکیں گے۔ کیوں کہ تصوف دین کا ایک اہم رکن ہے اور موجودہ صدی تصوف کی صدی ہے۔ آج ضرورت ہے کہ تصوف کے پیغام محبت کو عام کیا جائے تا کہ ہم بھی کامل طور سے دین میں داخل ہو سکیں اور روحانیت کی متلاشی دنیا کو بھی تصوف کے جام محبت سے سرشار کیا جا سکے۔

تصوف خود صوفیائے اسلام کی زبانی اور ان مقدس ہستیوں کے فرمودات عالی کے اجالے میں ملاحظہ فرمائیں! حضرت امام باقر بن علی بن حسین بن علی کرم اللہ وجہ الکریم فرماتے ہیں کہ تصوف خوش خوئی کو کہتے ہیں جو زیادہ خوش خو ہوتا ہے وہ زیادہ صوفی ہوتا ہے اور خوش خوئی دو قسم پر ہے اول حق تعالیٰ کے ساتھ دوم خلق کے ساتھ۔ حق تعالیٰ کے ساتھ نیک خوئی یہ ہے کہ اسکی قضاء کے ساتھ رضا اختیار کرے۔ خلق کے ساتھ نیک خوئی یہ ہے کہ حق تعالیٰ کے خاطر خلق کی محبت کا بوجھ برداشت کرے۔ ابو المحض پیشاوری فرماتے ہیں کہ تصوف سراپا ادب ہے ہر وقت اور ہر حالت کے لئے۔ ایک ادب ہوتا ہے جو شخص ان اوقات کا ادب ملحوظ رکھتا ہے مردانگی کے درجہ پر پہونچ جاتا ہے۔ جو کوئی ادب ضائع کرتا ہے وہ قرب سے دور رہتا ہے اور قبول حق سے مردود ہو جاتا ہے اور حضرت شبلی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں، صوفی وہ ہوتا ہے جو دونوں جہان میں سوائے خدائے تعالیٰ کے کچھ نہیں دیکھتا ہے۔ یہ طائفہ تمام خلق میں برتر اور بزرگ تر ہے۔ کیوں کہ ہر گروہ کسی نہ کسی چیز سے سیر ہو جاتا ہے لیکن یہ گروہ دو جہاں سے بھی سیر نہیں ہوتا۔ جب تک خداوند تعالیٰ تک نہ پہونچ جائے۔ اس وقت میں نہیں چاہتا ہوں کہ لفظ صوفی کی تحقیقی اختلاف میں قدم رکھوں ۔ بہت سے محققین نے لفظ صوفی کی تحقیق میں الگ الگ اظہار خیال کیا ہے ۔

بعض لوگ کہتے ہیں کہ صوفی کو اس لئے صوفی کہتے ہیں کہ صوفی اصحاب صفہ کے ساتھ نسبت رکھتے ہیں لیکن صوفی کا لفظ صوف سے مشتق ہونا زیادہ قرین قیاس اور مستحسن معلوم ہوتا ہے۔ اسلئے کہ اصحاب صفہ بھی اہل صفا سے تھے۔ جب اس طبقہ نے اپنے اخلاق و اعمال درست کرنے اور طبیعت کی برائیوں سے نجات پائی پاکیزہ اوصاف کی وجہ سے صوفی کہلانے لگے۔

غرض یہ کہ تمام تر لفظی تحقیق کا منشا و مقصود یہی سمجھ میں آیا کہ صوفی معاشرہ اور سماج اور ہر دور اور ہر جگہ اپنے کردار وعمل سے دنیا کو درس انسانیت کا پیغام دیتا ہے اور وہ خلق خدا کے قریب رہکر خلق کی فریاد رسی کرتا ہے۔ صوفیائے کرام کی جماعت اولیاء اللہ کے زمرہ کا نام ہے۔ جنکے مختلف مقام اور درجات ہیں۔

صوفیا نے اپنی اصطلاح میں صوفی کو چار گروہ میں تقسیم کیا ہے۔
۱.ارزهاد ۲.عباد ۳.خدام ۴.فقراء
زهاد:۔ وہ ہیں جو نور و ایمان ویقین سے آخرت کے جمال کا مشاہدہ کرتے ہیں اور دنیا انکی نظر میں حقیر ہوتی ہے۔
عباد:۔ وہ ہیں جو ہمیشہ عبادت نوافل وظائف وغیرہ میں مشغول رہتے ہیں اور ہمیشہ آخرت کے ثواب کی امید میں رہتے ہیں۔
خدام:۔ ان لوگوں کو کہتے ہیں جو فقراء اور طالبان حق کی خدمت اختیار کر لیتے ہیں اور اپنے اوقات کو فرائض کی ادائیگی کے بعد معاش اور امداد خلق میں صرف کرتے ہیں۔ اور امداد خلق کو نوافل پر ترجیح دیتے ہیں اور جائز طریقے سے طلب معاش کرتے ہیں بعض کسب کے ذریعہ اور بعض فتوح غیب کے ذریعہ اس حالت میں خادم اور مخدوم کی حالت ایک دوسرے کی مشابہ ہوتی ہے۔
فقراء:۔ وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنے آپ کو دنیا کی کسی چیز کا مالک نہیں سمجھتے اللہ کی رضا جوئی میں سب کچھ ترک کر دیتے ہیں ان فقراء کا ترک دنیا کر دینا تین وجوہات کی بنا پر ہوتا ہے۔ یہی وجہ تخفیف حساب اور خوف عقاب کیوں کہ حلال کا حساب ہوگا اور حرام کا عذاب اور دوسری وجہ توقع فضل ثواب اور جنت میں داخل ہونے میں سبقت ہے۔ کیوں کہ فقراء پانچ سو سال غنی لوگوں سے پہلے بہشت میں داخل ہونگے۔ تیسری وجہ جمعیت خاطر اور سکون قلب ہے۔ تا کہ یکسوی اور حضور قلب کے ساتھ عبادت کر سکیں اور فقیر کو مقام صوفی میں ایک اور خوبی اور وصف حاصل ہوتا ہے۔ اور وہ اس وجہ سے کہ فقیر اپنے تمام احوال و اعمال مقامات کی نسبت اپنی ذات سے نہیں کرتا ہے ۔ بلکہ عدم تملک سے کام لیتا ہے یعنی کوئی چیز اس کی ذات سے نہیں ۔ بلکہ حق تعالیٰ سے ہے۔

چنانچہ اپنے کسی حالا اور کسی مقام کو اپنی وجہ سے نہیں دیکھتا ہے۔ اور اپنے ساتھ مخصوص نہیں کرتا ۔ بلکہ خود نگاہ نہیں ڈالتا۔ تو نہ ہی اسکا وجود باقی رہتا ہے نہ ذات۔ اور نہ ہی صفات محو در محو اور فنا در فنا ہوتا ہے اور یہی حقیقت فقر ہے۔ صوفیا مشائخ نے فقیر کے بارے میں بہت کچھ لکھا ہے۔

حضرت قطب الاقطاب قطب المدار زندہ شاہ مدار رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فقیری کو اصل بتایا ہے۔ اس لئے فقیر خود پر نگاہ نہیں ڈالتا فقیر کواللہ تعالیٰ اپنی قباء عزت کے نیچے چھپا لیتا ہے بظاہر تنگ حال مسکین ہوتا ہے۔ اسلئے دنیا فقیر کو اکثر سمجھ نہ سکی سرکار سید بدیع الدین زندہ شاہ مدار رضی اللہ عنہ نے فرمایا فقیری لوہے کے چنے چبانا ہے۔ یوں تو تمام سلاسل طریقت کے صوفیا و فقراء اپنی مثال آپ ہیں سب اپنی اپنی جگہ آبروئے اسلام اور نقیب دین وملت ہیں لیکن سلسلہ مداریہ جو حضور شہنشاہ سید بدیع الدین زندہ شاہ مدار رضی اللہ عنہ سے جاری ہوا اس سلسلہ کے فقراء کی حیات اور ان کے ترک و تجرید وریاضت کو دیکھ کر ارباب حقیقت و معرفت رشک کرتے ہیں۔

حضرت سیدنا سید بدیع الدین زندہ شاہ مدار رضی اللہ عنہ نے روحانی تعلیمات سے صوفی اور فقیر کی بہت بڑی جماعت کو تیار فرمایا ۲۸۰ ھ سے لیکر اپنی حیات کے آخری لمحات تک تقریباً ۱۵۰۰ برس سے زائد وقت تک تبلیغ دین اور رشد و ہدایت کا کام انھیں فقراء صوفیا ملنگان کرام کے ذریعہ انجام دیا متعدد ملکوں کا دورہ فرمایا اور جہاں جیسی ضرورت تھی اس ملک کے نشیب و فراز کے اعتبار سے ایسی جماعت فقراء اور صوفیا کو وہیں کے اعتبار سے ویسا ہی لقب دیگر مثلاً گروہ فقراء میں کبھی تو انھیں خادمان کے لقب سے نوازا اور کبھی تو گروہ دیوانگان کے لقب سے تو کبھی تو گروہ ملنگان کے نام ولقب سے دنیا کو روشناس کراکر اس گروہ کے ذریعہ کلمہ توحید ورسالت کی شمع روشن فرمائی ملنگان کرام کی جماعت گروہ صوفیا اور فقراء میں اپنی ظاہری وضع قطع اور باطنی کمالات کے باعث تمام سلاسل تصوف و طریقت کے صوفیا و فقراء کیلئے مرکز عقیدت ہیں۔

دنیا کے تمام تر ممالک خصوصاً ہندو پاک کے اکثر مقامات دیہات جنگلات ساحل سمندر پہاڑ قریہ آبادی غیر آبادی ہر ایک مقام پر بیٹھ کر ذکر الہی عبادت و ریاضت فرمائی ہے۔ تمام خلق خدا کو اپنی دعاؤں اور توجہ سے نوازا ہے سب کے کام آئے ہیں ہر انسان کے دکھ درد میں کام آتے رہے اور آج بھی کام آتے ہیں۔ دنیا کے تمام تر علائق و حوائج سے دور رہے ہیں۔ فقراء کی جماعت میں ملنگ حضرات ہوتے ہیں۔ حضرت سیدنا سید بدیع الدین زندہ شاہ مدار رضی اللہ عنہ کے سلسلہ مداریہ میں تصوف اور فقر و درویشی کا جو رنگ ہے وہ طرز وہ اسلوب دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے سرکار مدار پاک نے خالص قرب الہی کا راستہ عطا فر مایا وہ تصوف جس میں احترام شریعت بھی آداب طریقت بھی اخلاق نبوی ﷺ کا جذ بہ کامل بھی موجود ہے اور یہی وہ تصوف و فقر کا راستہ ہے جس پر چلکر اولیائے کرام نے اپنے اپنے طریقے سے رجال اللہ کے اقسام بیان فرمائے ہیں۔

صاحب عوارف المعارف روایت کرتے ہیں اس طبقات کے مراتب ان کے درجات کے مطابق تین اقسام ہیں پہلی قسم واصلین و کاملین کا مرتبہ ہے اور یہ طبقہ سب سے اونچا ہے دوسری قسم سالکان طریق کمال کا مرتبہ ہے اور یہ طبقہ درمیانہ ہے تیسری قسم اہل نقصان کی ہے جو سب سے زیریں طبقہ ہے اول طبقہ واصلین کی بھی دو قسمیں ہیں ۔ پہلی قسم مشائخ صوفیا کی ہے جو رسول اللہ ﷺ کی کمال متابعت کی وجہ سے مرتبہ وصول یافتہ تک پہونچ کر اسکے بعد مخلوق کی کی ہدایت پر مامور ہوتے ہیں ہیں ان کو کاملان کہتے ہیں۔ کیوں کہ خلق کی ہدایت پر مامور ہوتے ہیں دوسری قسم صوفیا وصول یافتہ کے بعد خلق کی طرف رجوع نہیں کرتے ہیں۔ کیوں کہ انھیں یہ خدمت تفویض نہیں ہوتی ہے اکثر حالت سکر اور عالم جذب میں ہوتے ہیں اسی طرح سالکین کی بھی دو قسم ہے پہلی متصوفہ دوسری ملامت یہ جو اپنے نفس کی بعض صفات سے خلاصی حاصل کر لیتے ہیں اور اوصاف وحسنہ میں سے بعض اوصاف و احوال سے متصف ہو جاتے ہیں لیکن ملامتیہ وہ لوگ ہیں جو اخلاص کی سختی سے نگہداشت کرتے ہیں اور اپنے تمام اوقات میں اخلاص کی تحقیق کی طرف متوجہ ہوتے ہیں جس طرح ایک گنہگار اپنے گناہ کے ظہور سے خوفزدہ رہتا ہے اسی طرح یہ لوگ اپنی اطاعت کے ظاہر ہونے پر ڈرے رہتے ہیں اس لئے ان کے بعض امور بظاہر خلاف شرع معلوم ہوتے ہیں۔ ملامتیہ گروہ کے فقراء صوفیا زیادہ تر سلسلہ مداریہ اور سلسلہ قلندریہ میں پائے جاتے ہیں تصوف اور فقر کی دنیا میں جو روحانی کمالات اور خوارق عادات اور حیران کن احوال نظر آتے ہیں یہ حضور سرکار سید بدیع الدین زندہ شاہ مدار رضی اللہ عنہ کی روحانی توجہ اور آپ کی شان ولایت کی جلوہ گری ہے۔ آپ کی صوفیانہ تعلیمات ہی کا اثر ہے جو جماعت فقراء و صوفیا روشن ستاروں کی طرح پر نور و ضوفشاں ہے۔

مفتی الشاہ غلام یحیآ بانی و مہتم الجامعۃ المداریہ عربی کالج اتر ولہ، بلرام پور، یوپی

Tagged:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *