مکن پور شریف کے آباد ہونے کی تاریخی حقیقت

History of makanpur, makanpur

دوسری قسط

ایک برطانوی محقق الکزنڈرکون (ELEXENDR CON)
نے 1884ء میں آج سے تقریباً ایک سو پینتیس (135) برس پہلے حضور سید بدیع بن قطب المدار رضی اللہ عنہ کی “انسانی خدمات” کے موضوع پر ایک بڑا ہی تحقیقی مقالہ پیش کیا تھا اس مقالے کو اس نے دنیا کے بیشتر ملکوں میں پڑھا اور دنیا والوں کو مدار پاک کی ان خدمات جلیلہ سے روشناس کرایا جو حضور مدار پاک نے اپنی طویل عمر میں انسانی حقوق اور انسانیت کیلئے انجام دی تھیں اس مقالے کے بہت سے حصوں میں اس نے بڑے وثوق کے ساتھ لکھا ہے کہ سید بدیع الدین قطب المدار وہ واحد شخص ہیں جنہوں نے مسلسل پانچ صدیوں تک انسانیت کو سچی راہ دکھانے کیلئے اسلامی تعلیمات کو عام کیا تھا۔ الکزنڈرکون نے شیخ عبد القادر بدایونی کے حوالے سے جو آرٹکل لکھا اس میں حضور مدار العالمین کے مکن پور شریف آمد کی تاریخ ۸۱۸ کی بھی خوب وضاحت کی ہے۔

:چنا نچھ وہ لکھتا ہے کہ
“ABDUL QADIR BADAYUNI ELATES THAT HE WENT ON A PILGRIMAGE TO MAKANPUR SHARIF A DEPENDENCY OF KANNAUJ. WHERE IS THE TOMB OF TH HOLY SHEKH SYED BADIUDDIN SHAH MADAR HE CAME TO MAKANPUR IN HIJR
YEAR 818.”

(ARCHELOGICAL SURVEY OF INDIA REPORT OF TOUR VOIL NO. XVII CALKATTA-1884)

مدار پاک کی آمد سے ہی اس حصہ ارضی یعنی مکن پور شریف کی تاریخ وابستہ ہے۔ یعنی جس دن اس عظیم المرتب ولی کامل نے اس دھرتی کو اپنے قدوم میمنت لزوم سے سرفراز فرمایا۔ اسی تاریخ سے ہندوستان کی پیشانی پر یہ خطہ آفتاب کی طرح چمکنے لگا۔ ۱۹۸۸ کا زمانہ اہل تصوف اور روحانیت کے لیے ایک حسین پیغام لیکر آیا جس نے مکن پور شریف و دارالنور بنا کر خانقاہی نظم ونسق کا ایسا مرکز بنا دیا جہاں سے آج بھی تشنگان علم و معرفت کو بحرعلوم مصطفی اور علم وحکمت علی مرتضی سے سیرابی حاصل ہوتی ہے۔ جب ہم ۸۱۸ھ کے عدد پر غور کرتے ہیں تو حسب ذیل تاریخ ہماری تحقیقات کے نظریہ سے سامنے آتی ہے۔

پہلے خیر آباد نام تھا:۔

جب حضور مدار العالمین نے اس حصہ ارضی پر قدم رنجہ فرمایا تو اسکا نام خیر آباد رکھا گیا۔ اس ضمن میں محققین و مورخین اپنی رائے یہ دیتے ہیں کہ حضور مدار پاک کے ایک مرید وخلیفہ کا نام خیرالدین تھا انہیں کے نام پر اس جگہ کا نام خیر آباد رکھا گیا تھا۔ اب سوال یہ سامنے آتا ہے کہ اس وقت آپ کے بہت سے جلیل القدر مریدین وخلفاء موجود تھے اور پھر خود سرکار مدار پاک کے نام پر بھی اس جگہ کا نام رکھا جاسکتا تھا مگر خیرالدین کے نام کو ہی کیوں پسند فرمایا گیا اور ان کے نام پر خیر آباد کیوں رکھا گیا۔
اس سلسلہ میں جواب یہ سامنے آتا ہے کہ حضرت خیرالدین نہایت ہی سلیم الطبع اور دور اندیش تھے ساتھ ہی ساتھ جب حضور مدار پاک ۸۱۸ھ میں اس غیر آباد جگہ تشریف لائے تو آپ کے ہمراہ مریدین و خلفاء کا کثیر مجمع تھا ان سب کی ضیافت اور ان کی سبھی ضروریات کو پورا کرنے میں حضرت خیرالدین شب و روز خدمت میں لگے رہتے تھے۔ تذکرہ نگاروں نے لکھا ہے کہ ویسے تو اس روحانی قافلے کی رہبری حضور مدار پاک خود فرما رہے تھے مگر حضرت خیرالدین کو مکمل طور پر سب کی دیکھ ریکھ اور روزانہ کی کارگزاریوں کی مکمل ذمہ داریاں دی گئی تھیں ان کاموں کو وہ بڑی سعادت مندی کے ساتھ پورا کرنے میں اس قدر مصروف و مشغول رہتے کہ ہر ایک ان سے بے حد محبت کرتا اور بھی لوگ ان کے کاموں سے خوش ہو کر ان کو دعاؤں سے نوازتے۔ بعض جگہ تو یہ بھی لکھا گیا ہے کہ وہ نہایت مفلوک الحال تھے اور ان کے مرشد گرامی حضور مدار العالمین خود ان سے حد درجہ محبت فرماتے تھے، ان کی سعادت مندیوں سے ہی خوش ہو کر انہیں کے نام پر اس جگہ کا نام خیرآباد رکھا گیا تھا۔

دوسری وجہ تسمیہ :۔

جب حضور مدار پاک اس غیر آباد جگہ پر مستقل قیام کیلئے تشریف لائے تو اس وقت ۸۱۸ کا زمانہ تھا۔ قاعدہ ابجد کے حساب سے خیر آباد کے عدد ۸۱۸ نکلتے ہیں۔ تو اس مناسبت سے کہ ۸۱۸ خیرآباد کے عدد ہیں اس آبادی ک نام خیرآباد رکھا گیا تھا۔ یہ قول بہت حد تک صحیح ہے کیوں کہ خیرآباد نام کا جو عدد ہے وہ اس غیر آباد جگہ کو آبادی میں بدل دینے کی تاریخی حیثیت رکھتا ہے۔ اور اس ضمن میں بہت سے محققین نے اپنی رائے اس طرح دی ہے۔
جناب سید علی شکوہ رحمہ اللہ علیہ اپنی تصنیف “مرقع درگاہ شریف” کے صفحہ نمبر ۱۶ پرتحریر فرماتے ہیں ، اس دشت میں حضور قطب المدار نے بستی آباد فرمائی اور خیر آباد نام تاریخی اس قصبہ فخر البلاد کا رکھا جس سے ۸۱۸ عدد واضح ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر اقبال احمد جو پوری اپنی تحقیقی تصنیف “تاریخ سلاطین مشرق اور صوفیائے جونپور” کے صفحہ نمبر ۱۴۳۲ پر تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت قطب المدار سفر کرتے ہوئے اپنی آخری قیام گاہ پر روانہ ہوئے یہ ایک غیر آباد مقام تھا آپکے آنے سے لوگ آکر وہاں آباد ہونے لگے اس آبادی کا نام ابتدا میں خیرآباد رکھا گیا بعد میں آپ کے خلیفہ حضرت مکن سر باز مداری کے نام پر مکن پور رکھ دیا گیا۔

بعض کتب معتبرہ میں ہے کہ حضرت مکن سرباز مداری کا نام ہی خیرالدین تھا تو خیر آباد اس مناسبت سے رکھا گیا تھا اور خیر آباد کے عدد ۸۱۸ ابجد کے قاعدے سے ہیں تو یہ ایک تاریخی نام بھی ہے۔ اس طرح ہم دیکھیں تو تاریخی اعتبار سے دونوں قول درست ہیں مگر قول ثانی جس میں یہ کہا گیا ہے کہ قاعدہ ابجد کے حساب سے 818 کے عدد کے اعتبار سے اس آبادی کا نام خیر آباد رکھاگیا تھا تویہ تول بالکل صیح اور معتبر ہے۔

خیر آباد سے مکن پور کیسے ہو گیا

دنیا میں رونما ہونے والے تمام انقلابات سے وقت کے دھاروں کا رخ بدل جاتا ہے۔ آبادیوں کے نام میں تبدیلی کوئی بہت بڑی وجہ نہیں ہوتی ہے۔ یہ علاقہ پہلے خیرآباد تھا اور اب مکن پور ہے۔ یہ تو واضح کہ خیرآباد کاعد ۸۱۸ ہے اور قطب المدار ۸۱۸ھ میں یہاں مقیم ہوئے تو یہ ایک تاریخی نام تھا مگر بعد میں اس کو مکن پوری کہا جانے لگا۔ دراصل اس کا تعلق سلسلہ مداریہ کے عظیم بزرگ جن کا آستانہ بھی مکن پور شریف ہے حضرت مکن سرباز مداری سے ہے جو ایک نہایت ہی برگزیدہ شخصیت کے مالک تھے۔ حضرت مکن سرباز مداری کے بارے میں تذکرہ نگاروں نے لکھا ہے کہ ہر وقت اپنے مرشد گرامی حضور مدار پاک کی خدمت اقدس میں حاضر رہتے ایک لمحہ کیلئے بھی اگر کہیں جاتے تو اپنے مرشد سے اجازت لیکر جاتے۔ مدار پاک کی خدمت میں آنے والے اور دین سیکھنے والے اسلام قبول کرنے کے بعد حضرت مکن سرباز مداری کی ضیافت اور مہمان نوازی سے سرشار ہو کر ان کے اخلاق کریمانہ کا کلمہ پڑھتے نظر آتے تھے۔ حالانکہ حضرت مکن سر باز مداری ایک نہایت ہی مفلوک الحال سرباز اور مفلس و نادار انسان تھے۔

کیا مکن سر باز مداری کا نام ہی خیر الدین تھا

اس تاریخ سے کسی بھی محقق یا مورخ نے کوئی اختلاف نہیں کیا ہے کیوں کہ حضور مدار العالمین کے ۸۱۸ میں اس غیر آباد جگہ پر آنے کے وقت آپ کے ہمراہ جو نورانی قافلہ تھا اس میں حضرت خیرالدین نام کے جو مرید وخلیفہ تھے آگے چل کر سب لوگ انہیں کو مکن سر باز مداری کے نام سے پکارنے لگے تھے۔ ان کی تاریخ ولادت اور ان کا آبائی وطن ضابطہ تحقیق میں نہیں ہے لیکن اتنا ضرور لکھا ملتا ہے کہ وہ سادات گھرانے سے تھے اور ان کے نام کے ساتھ سید خیرالدین لکھا جاتا تھا۔ اپنے مرشد کی محبت میں اس قدر دیوانہ وار زندگی گزاری کہ مخلوق خدا کے دلوں پر ان کی روحانی حکومت کا سکہ چلنے لگا ہنوز یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ آپ کا مزار دار النور مکن پور شریف میں ہے اور صدیاں گزرگئی ہیں مگر حضرت خیرالدین عرف مکن باز مداری رحمتہ اللہ علیہ کا سالانہ عرس آج بھی اہتمام کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ آج بھی ان کی ولایت کا راج لوگوں کے دلوں پر ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ وہ ایک نہایت مفلس اور نادار تھے اور ان کا پیشہ گاہ کنی تھا۔
جب ۵۸۳۸ میں ان کے پیرو مرشد حضرت سید بدیع این قطب المد رضی اللہ تعالی عنہ کا وصال ہو گیا تو حضرت مکن سرباز مداری نے یہ ارادہ کیا اور عزم مستحکم ظاہر کیا کہ وہ اپنے پیسے سے مدار پاک کے روضہ اقدس پر کلس طلائی (سونے کا کلس) چڑھائیں گے۔ ایک غریب ، مفلس اور نادار اور مظلوک الحال میں زندگی گزارنے والے انسان کے اس عزم مستحکم سے دنیا حیران تھی ، مگر انہوں نے دن رات محنت کر کے اپنی محنت کی کمائی سے روضہ قطب المدار پر سونے کا کلس چڑھایا تھا۔
حضرت سید علی شکوہ رحمۃ اللہ علیہ اپنی تصنیف “مرقع درگاہ شریف” تاریخ طباعت ۱۳۴۳ھ کے صفحہ نمبر ۶۱ پر تحریر فرماتے ہیں۔ حضرت مکن سر باز نے شادی نہیں کی ہمیشہ اپنے مرشد پاک کی خدمت میں حاضر رہتے تھے اکثر اوقات آپ کاہ کنی کو تشریف لے جاتے خیال قلبی آپ کا یہ تھا کہ اس قدر رقم جمع ہو جائے کہ میں کلس طلائی اپنے مرشد کے روضہ پر چڑھاؤں۔ آج بھی بالائے روضہ وہ کلس مکن سر باز موصوف کا ہنوز رونق بخش ہے۔
ایک نہایت مفلس و نادار شخص کے اس عظیم کارنامے کو زندہ جاوید رکھنے کیلئے اس وقت کے شریف النفس لوگوں نے اس آبادی کا نام ہی مکن پور رکھ دیا۔ پہلے اس کو “ک” کی تشدید کے ساتھ بولا جاتا تھا۔ مگر کثرت استعمال نے مگن سے مکن پور کر دیا۔

حضور قطب المدار نے اس جگہ کا انتخاب کیوں فرمایا

مکن پور سلسلہ مداریہ کا مرکز ہے اور حضرت قطب المدار کے فیض روحانی کے صدقہ میں عقیدت مندوں کا سر چشمہ حیات ہے۔ تذکرہ نگاروں نے کتب ہائے معتبرہ کے حوالوں سے تحریر کیا ہے کہ حضرت قطب المدار کو آپ کے جد کریم جناب محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے عالم رویا میں یہ حکم فرمایا تھا کہ بدیع الدین تم ہندوستان جاؤ اس لیے کہ ہندوستان کو تمہاری رہبری اور رہنمائی کی ضرورت ہے۔
حضرت امیر حسن اپنی فارسی تصنیف ” تذکرة المتلقین “ کے صفہ نمبر ۴۶ پر تحریر فرماتے ہیں :۔
“و بعد حصول نعمائے دو جہانی و دولت جاودانی بحکم حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم برائے ہدایت ملک ہند ماذون و مامور کشتند و آن حضرت ارشاد فرمودند کہ متصل قنوج دشتی است کہ دران میان جانب جنوب تالابیست ازوے صدا ”یا عزیز“ پیہم می آید و آن زمین حق تعالی برائے تو مخصوص کرده است آن آراضی مرجع خلائق خواہد شد و مضجع و مدفنت ور انجا خواہد گردید۔” اس لئے حضرت قطب المدار منوج کے علاقہ میں اس سرزمین کی تلاش میں ادھر آئے تھے جہاں کی آپ کو بشارت دی گئی تھی اور ہدایت دی گئی تھی کہ وہی جگہ تمہاری آخری قیام گاہ ہوگی۔

ڈاکٹرسید اقبال احمد جونپوری اپنی حقیقی تصنیف ” تاریخ سلاطین شرقی اور صوفیائے جو نہور کے صح نمبر ۱۴۳۲ پر تحریرفرماتے ہیں:۔
حضرت قطب المدار آخری سفر کرتے ہوئے اپنی آخری قیام گاہ کی طرف روانہ ہوئے جس کی نشاندہی حضور علیہ السلام نے عالم رویا میں فرمائی تھی کہ اس سرزمین سے یا عزیز کی آواز آرہی ہوگی۔ یہ ایک غیر آباد مقام تھا اور جہاں ایک تالاب تھا وہ آپ کے پہنچنے پر خشک ہوگیا اور یا عزیز کی آواز آنا بند ہوگئی آپ نے اس تالاب میں قیام فرمایا آپ کی آمد کے بعد لوگ وہاں آکر کثرت سے آباد ہونے لگے

حکیم فرید احمد عباسی نقشبندی اپنی تصنیف “مدار اعظم” (سن طباعت ۱۳۳۳ھ ) کے صفہ نمبر ۵۹ پر تحریر فرماتے ہیں :۔
حضرت قطب المدار مدینہ منورہ میں تھے کہ ایک روز عالم رویا میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بدیع الدین ہم نے تمہارے قیام کیلے ہندوستان کو تجویز کیا ہے وہاں تم جاؤ اور دین محمدی کو پھیلا کر ہندوستان میں ایک شہر قنوج ہے اس کے میدان میں جنوب کی طرف ایک تالاب ہے اس کا لہروں سے یا عزیز کی آواز آتی ہے وہاں کی زمین تمہارے قیام کیلئے مخصوص کر دی گئی ہے۔

ان تاریخی حوالہ جات کی روشنی میں حضرت قطب المدار کا اس حصہ ارضی پر تشریف لانا گویا حکم کی تکمیل اور تعمیل میں تھا۔ یہاں پر ایک بہت بڑا تالاب تھا اور اس کے پانی سے یا عزیز کی آواز آرہی تھی آپ نے سمجھ لیا کہ عالم رویاء میں میرے جد کریم حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے قنوج شہر کے جنوبی حصہ میں جس جگہ کی نشاندہی فرمائی تھی یہ وہی مقام ہے۔ آپ نے آگے بڑھ کر تالاب کے اس پانی کو اپنے ہاتھ میں اٹھایا پانی کو ہاتھ لگانا تھا کہ خدا کی قدرت کی قدرت کاملہ سے وہ تالاب خشک ہو گیا۔ اور تالاب سے یا عزیز کی آواز آنا بند ہوگئی۔

حضرت قطب المدار اس ملک میں راہ راست سے بھٹکی ہوئی انسانی زندگی کو ایمان ویقین کی دولت تقسیم کرتے ہوئے ۱۸۱۸ میں اس مقام پر تشریف لائے تھے جہاں آج آپ کی آخری قیام گاہ ہے اور جس کو مکن پور کہا جاتا ہے یہ جگہ بالکل غیر آباد تھی دور دراز تک ایک نہایت وسیع جنگل تھا اور اس جنگل کے درمیان ایک بہت بڑا تالاب تھا۔

تذکرہ نگاروں نے لکھا ہے کہ حضرت قطب المدار کو آپ کے جد کریم حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مقام پر آباد ہونے اور آپ کی مستقل قیام گاہ کے بارے میں بشارت سے نوازا تھا کہ اس تالاب پر یا عزیز کی صدا آرہی ہوگی اور وہی جگہ تمہاری آخری قیام گاہ ہوگی۔ غرض کہ سیکڑوں برس قدیم کتب معتبرہ میں یہ بات تحریر ہے کہ حضرت سید بدیع الدین قطب المدار نے اس مقام پر پہنچ کر جب اس تالاب کے پانی کو ہاتھ لگایا تو “یا عزیز کی آواز بند ہوگئی اور تالاب کا پانی خود بخود خشک ہو گیا۔
اگر چہ دانشور اور محققین اس واقعہ کو عقیدتمندوں پر محمول کرتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ اس نظام کائنات کے روحانی تاجداروں کے یہاں اس قسم کے ہزاروں واقعات دیکھنے کو ملتے ہیں۔

جس مقام پر تالاب تھا وہ حصہ چھ سو سال کے بعد آج بھی بدستور اسی شکل میں موجود ہے۔ اس مقام کی سطح مکن پور کی سطح ارض سے آٹھ فٹ سے زیادہ نچی ہے۔ اس غیر آباد جگہ پر حضرت قطب المدار ۸۱۸ میں تشریف لائے اس اعتبار سے قاعدے ابجد کے حساب سے ۸۱۸ عدد کا جو حساب تھا اس سے اس مقام کا نام خیر آباد رکھا گیا یہ ایک تاریخی نام تھا۔

آج جس مقام پر حضرت قطب المدرا کا مزار مبارک ہے وہاں پر تالاب ہونے کا ثبوت آج بھی نمایاں طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ مکن پور بستی کی آبادی سے وہ حصہ پورے ۸ فٹ نیچا ہے۔ چاروں طرف کی زمین اس حصہ سے بلند ہے اور خانقاہ کا وہ حصہ اس مقام پر تالاب ہونے کے ثبوت کو آج بھی محفوظ کئے ہوئے ہے۔

۸۱۸ھ کا وہ دور جب حضرت قطب المدار یہاں تشریف لائے تھے، اس علاقہ کی تاریخی اہمیت میں بہت عجیب سے عجیب تر واقعات و حادثات کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔ ہندوستان پر سیدوں کی حکومت کا دور تھا۔ اور خضر خاں جس نے دہلی کے تخت پر بیٹھنے کے بعد ہندوستان میں خاندان سادات کی حکومت کی بنیاد رکھی تھی۔ اس دور میں خضر خاں کے خلاف ملک بھر میں بغاوتیں کھڑی ہوگئی تھیں اور مکن پور کے اس علاقہ میں جو قنوج کے مضافات میں ہے یہاں پر بھی یعنی قنوج کے ہر حصہ ارضی میں پورے ملک جیسا ماحول تھا۔ اور بادشاہ مکمل طور پر پورے ملک میں اپنے خلاف ہونے والی بغاوتوں کی سرکوبی میں مصروف تھا۔

حضرت قطب المدار نے یہاں تشریف لانے کے بعد پورے بیس (۲۰) برس یہاں مستقل قیام پذیر رہے اور یہیں سے متعدد علائق میں تبلیغ کی خاطر تشریف بھی لے گئے اور ۸۳۸ھ میں اسی مقام پر وصال فرمایا۔ آپ کے وصال کے بعد سے یہاں عقیدت مندوں کے میلے لگنے لگے۔ روحانی علوم کے ساتھ ساتھ ظاہری علوم کی درس و تدریس کیلئے یہ خانقاہ آگے آئی اور رفتہ رفتہ مکن پور علماء اور مشائخ کا مرکز بن گیا۔ جب تک فارسی زبان کا رواج رہا یہاں کے مشائخ فارسی کے ادیب اور شاعر بن کر سامنے آئے اور جیسے جیسے اردو زبان نے جنم لیا یہ چھوٹی سی بستی بھی اردو زبان و ادب کا مرکز بن گئی اور یہاں ہر دو ر میں بڑے بڑے ادباء و علماء پیدا ہوئے ہنوز یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے

Tagged:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *