قطبِ پیلی بھیت حضرتِ سرکار شاہ جی محمد شیر میاں کا نام روحانیت کی دنیا میں کسی بھی مومن کے لیے انجانا نہیں، آپ کی پوری زندگی علم، روحانیت، کرامات، تعظیمِ رسول اور انسانوں کی راہنمائی سے بھری ہوئی ہے۔
تعارف – پیدائش اور خاندان
حضرت شاہ جی محمد شیر میاں صاحب قبلہ رحمتہ اللہ علیہ، حضرت دیوانہ بابا کی اولاد میں سے ہیں، جو خراسان کے مشہور و معروف بزرگ ہیں، جن کا مبارک نام خراسان میں مثلِ آفتاب کے روشن ہے اور مزار شریف ان کا بانیَر میں ہے،
شاہ جی میاں صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے دادا صاحب خراسان سے ملکِ ہندستان میں تشریف لائے اور شاہجہانپور میں قیام فرمایا۔ شاہ جی میاں کے والد کا نام محبت شیر خان تھا۔ ان کی شادی پیلی بھیت شریف میں محمد اسحاق خان صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے یہاں ہوئی تھی اور پھر آپ وہیں رہنے لگے۔
حضرت شاہ جی میاں رحمتہ اللہ علیہ کے تین یا پانچ بھائی تھے، علی شیر خان – ولی شیر خان – فتح شیر خان – محمد شیر خان یہ شاہ جی میاں کا نام تھا اور آپ سب سے چھوٹے تھے اور سب سے بزرگ بھی۔
شاہ جی میاں پیدائشی ولی تھے۔ بچپن میں آپ کے سر پر پنجائے غیبی رہتا تھا۔ آپ بسا اوقات خدا کے ذکر میں مشغول رہتے تھے۔ کھیل کود سے پرہیز کرتے تھے۔ کھانے پینے کی طرف توجہ نہیں فرماتے تھے۔ لذیذ کھانے پر التفات نہ فرماتے۔ اللہ عزوجل نے آپ کو بچپن ہی میں خُلقِ محمدی ﷺ عطا فرمایا دیا تھا۔
آپ نے اپنی تمام عمر ماں باپ کی خدمت میں گزاری، اسی غرض سے آپ نے اپنی شادی تک نہیں کی، تاکہ والدہ ماجدہ کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہو۔
شاہ جی میاں اپنی جوانی میں کشتی کا بھی شوق رکھتے تھے۔ آپ بہت بڑے پہلوان تھے۔ آپ کی گردنِ مبارک میں تین آدمی لٹک رہے ہوتے، لیکن آپ بیٹھے سے کھڑے ہوجاتے۔ آپ مثلِ پہلوانوں کے کھانے کی طرف رغبت نہ فرماتے۔ بلکہ جب آپ کشتی کا ارادہ کرتے تو بدھ کے دن کھانا چھوڑ دیتے اور جمعہ کی شام کو کشتی لڑ کر کھانا کھاتے تھے۔
حضور شاہ جی میاں کے ۱۲ ماموں تھے اور یہ سب بڑے عظیم بزرگ تھے۔ ان میں حضرت نعمت شاہ میاں قدس سرہ العزیز جن کا مزار مبارک پیلی بھیت میں دریائے خَکرا کے کنارے پر ہے، بہت ہی عظیم بزرگ تھے۔
آپ کی والدہ کا نام نور جہاں بیگم تھا۔
آپ کی والدہ ماجدہ نہایت بزرگ اور اولیاء کاملین میں سے تھیں۔ آپ ۱۶–۱۶ فاقے کرتی تھیں اور ذکرِ خدا میں مشغول رہتی تھیں۔ کھانے کی طرف التفات نہ فرماتی تھیں۔ آخر عمر میں آپ کی آنکھوں کی روشنی چلی گئی، مگر روحانی طاقت یہ تھی کہ اس کی روشنی سے دور دور کی چیزیں آپ کو نظر آتی تھیں۔ آپ روشن ضمیر تھیں۔ شاہ جی میاں فرمایا کرتے تھے کہ “ایک چاند اور تارا آپ کی آنکھوں کے سامنے ہر وقت رہتا تھا۔”
اگر کوئی مہمان سفر کرکے آنے والا ہوتا تو آپ اس کے آنے سے پہلے فرما دیا کرتی تھیں: “کھانا تیار کرو، مہمان آرہے ہیں۔”
شاہجی میاں کی والدہ کا مزارِ مبارک آج بھی سرکار شاہ جی میاں کے نورانی مزار کے بالکل قریب موجود ہے۔ آپ کے والد کی قبرِ انور بھی وہیں ہے، حالانکہ اوپر نشان نہیں ہے۔
حضور شاہ جی میاں کے زمانے کے بڑے بڑے عالم، صوفیہ اور بزرگ شاہ جی میاں کی ولایت کے قائل تھے۔
مشہور صوفی حضرت خواجہ حسن نظامی رحمتہ اللہ علیہ اپنی کتاب “حزب البحر” میں لکھتے ہیں:
“بیس–پچیس سال پہلے پیلی بھیت میں شاہ جی محمد شیر میاں نام کے بزرگ تھے۔ اس وقت پورے ہندستان میں چار بزرگ بہت مشہور تھے — علامہ فضلِ حق گنجِ مرادآباد، حاجی وارث علی شاہ دیوہ شریف، غوث علی شاہ پانی پت، شاہ جی محمد شیر میاں۔”
حج و زیارت
جب آپ حج کے لیے گئے تو پورے سفر میں نہ آپ نے اور نہ آپ کے ساتھیوں نے کھانا پکایا۔ ہر دن کوئی اجنبی آکر کھانا دے جاتا یہ نبیِ پاک ﷺ کی طرف سے کرم کی ایک جھلک تھی۔
جب آپ مدینہ پہنچے تو آپ نے کھانا پینا چھوڑ دیا یہ کہہ کر کہ اس پاک شہر میں ’قضاۓ حاجت‘ ادب کے خلاف ہے۔
ہاں البتہ آپ پان کھاتے تھے، لیکن مدینہ میں پان کی طلب ہونے پر بھی خود کو روکتے رہے، آخرکار ایک دن کرمِ مصطفوی ﷺ کا جلوہ ہوا، حضور ﷺ کی مبارک جالی میں سے ایک ہاتھ نکلا اور آپ کو پان کا بیڑا عطا کیا۔ صوفیہ اسے آپ کی بلند روحانیت اور رسول اللہ ﷺ کی آپ پر مہربانی کا کھلا ثبوت و کرشمہ بتاتے ہیں۔
کرامات
– حاجیوں کو بچانے کی کرامت
ایک قافلہ حج کے لیے سمندری جہاز سے جا رہا تھا، راستے میں بھیانک طوفان نے جہاز کو گھیر لیا، کپتان نے اعلان کر دیا کہ جہاز ڈوبنے والا ہے۔ جہاز میں آپ کے مرید بھی سوار تھے، وہ رو رو کر آپ کو پکارنے لگے۔ ایک مرید کو غنودگی ہوئی اور اُس نے خواب میں دیکھا کہ شاہ جی میاں تہبند باندھے، ہاتھ میں لاٹھی لیے جہاز پر پہنچ گئے۔ انہوں نے فرمایا: “میرے مرید! ڈر مت۔ اللہ بہت بڑا حافظ ہے۔” آپ نے زور سے “اللہ” کو پکارا اور اپنے کندھے سے جہاز کو سہارا دے کر اسے طوفان سے نکال دیا!
جب قافلہ واپس آیا اور مرید نے پوری روداد بیان کی تو سب حیرت میں پڑ گئے، کیونکہ اسی وقت پیلی بھیت میں آپ نائی سے بال بنوا رہے تھے، اچانک اٹھے، حجرے میں گئے، اور دیر بعد باہر آئے تو تہبند بھیگا ہوا اور کندھے پر خون کے نشان تھے۔ لوگوں نے وجہ پوچھی مگر آپ نے کچھ نہ بتایا۔ بعد میں جب مرید نے وہی تاریخ اور وقت بتایا تو لوگوں کو معلوم ہوا کہ جہاز کو کندھا دینے سے ہی آپ کا کندھا زخمی ہوا تھا۔
– علم کے خزانہ
کچھ لوگ نادانی میں کہتے تھے کہ “شاہ جی میاں بغیر پڑھے ہوئے تھے۔” لیکن حقیقت یہ ہے کہ آپ نے اپنے زمانے کے بڑے بڑے علما اور صوفیا کو علم دیا۔ ایک بار کچھ لوگ آپ کا ‘امتحان’ لینے آئے، انہوں نے عربی حدیث کو “قرآن کی آیت” کہہ کر آپ سے اس کا مطلب پوچھا۔ آپ کو غیرتِ ایمانی آئی اور فرمایا: “تمہیں شرم نہیں آتی؟ حدیث کو آیت کہہ رہے ہو!” بس یہ سننا تھا کہ ان کی عقل ٹھکانے آگئی اور وہ شرمندہ ہوکر لوٹ گئے۔
– اللہ ہو میاں کی حاضری
روحانیت کے آسمان کے ستارے، سرکار اللہ ہو میاں بھی آپ کے مرید ہوئے۔ انہیں خواب میں نبی پاک ﷺ نے فرمایا
“پیلی بھیت جاؤ اور محمد شیر کے ہاتھ پر مرید ہو جاؤ۔”
آپ کو بھی اسی وقت اشارہ ملا کہ “ہمارا شہزادہ آرہا ہے، اسے مرید کر لینا۔” جب وہ آئے تو آپ نے فرمایا: “جس نے آپ کو بھیجا ہے، اسی نے مجھے آپ کو مرید کرنے کا حکم دیا ہے۔”
اللہ ہو میاں عربی درسی کتابوں پر حاشیے لکھنے والے بڑے عالم تھے، اور ایسے عالم کا شاہ جی میاں کے ہاتھ پر مرید ہونا شاہ جی میاں کے علمی مرتبے کی سب سے بڑی دلیل ہے۔
– تعزیوں کی زیارت کا روحانی فیضان
ایک مرتبہ سرکار اللہ ہو میاں بارگاہِ حضور شاہ جی میاں میں حاضر تھے۔ اس وقت محرم کے دن تھے۔ پیلی بھیت شریف میں ہمیشہ سے تازیوں کی دھوم رہی ہے اور تازیہ داری بڑی شان و شوکت کے ساتھ ہوتی آئی ہے۔ سرکار شاہ جی میاں نے اللہ ہو میاں کو حکم فرمایا
“مولوی صاحب! جائیے اور تازیوں کی زیارت کر آئیے۔”
آپ حکم کی تعمیل میں روانہ ہوگئے۔ وہاں پہنچ کر زیارت میں مشغول ہو گئے اور کافی دیر تک وہیں رہے۔ جب واپس حاضر ہوئے تو سرکار شاہ جی میاں نے فرمایا:
“مولوی صاحب! ہم نے آپ کو صرف تازیوں کی زیارت کے لیے بھیجا تھا، لیکن آپ کتنی دیر بعد لوٹے ہیں، کیا بات ہے؟”
اس پر سرکار اللہ ہو میاں نے ادب سے عرض کیا:
“حضور! آپ نے تازیوں کی زیارت کا حکم فرمایا تھا، لیکن جب میں وہاں پہنچا تو دیکھا کہ وہاں حضرت امام حسن اور امام حسین (علیہما السّلام) تشریف فرما ہیں، اور اب آپ کے وسیلے سے مجھے ان کی زیارت بھی نصیب ہو گئی۔”
– فقیروں کا باطنی مقام
ایک مرتبہ سید بدیع الدین شاہ مدار صاحب مکنپوری رحمتہ اللہ علیہ کے مزار شریف پر حضور سرکار شاہ جی میاں حاضر ہوئے۔ اُس وقت عرس کا ماحول تھا۔ شاہ جی میاں نے دیکھا کہ عرس میں بہت سے فقیر رندانہ مزاج کے جمع ہوتے ہیں۔ اسی دوران شاہ جی میاں نے ایک فقیر کو دیکھا جو دروازے پر روضہ مبارک کی چادر بچھائے بیٹھا تھا، اور اس کے پاس بہت سے پیسے رکھے تھے۔ وہ بہت زور شور سے مانگ رہا تھا۔ یہ دیکھ کر شاہ جی میاں کے دل میں خیال گزرا کہ شاہ مدار صاحب کے ہاں فقیر رندانہ مزاج کے ہوتے ہیں، کوئی روزہ نماز کا پابند نظر نہیں آتا۔
اس واقعے کے بعد جب شاہ جی میاں رات کو بسترِ استراحت پر پہنچے تو خواب میں کیا دیکھتے ہیں کہ وہی رندانہ فقیر صاحب ایک منبر پر وعظ بیان فرما رہے ہیں، ان کے پاس بہت سی مخلوق جمع ہے، چہرے پر نور ہے، بہت خوشنما لباس پہنے ہوئے ہیں، اور چاروں طرف حسین ماحول ہے۔
یہ منظر دیکھ کر شاہ جی میاں کی آنکھ کھل گئی۔خواب کے ذریعہ شاید شاہ مدار نے یہ سبق دیا کہ: “اے شاہ جی! کسی فقیر کے رنگ ڈھنگ، حالت یا مزاج کو دیکھ کر اسے کم تر نہ جانو۔ میرے یہاں کے فقیر روزِ قیامت ایسا مرتبہ پائیں گے۔”
بیعت و خلافت
حضور شاہ جی میاں تمام سلسلوں کی خلافت و بیعت رکھتے تھے — قادریہ، چشتیہ، سہروردیہ، مداریہ۔ یہ تمام سلسلے آپ کو اپنے پیر و مرشد حضرت احمد علی شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ سے حاصل ہوئے۔ آپ کے سلاسلِ بیعت کچھ اس طرح ہیں
سلسلۂ قادریہ
حضرت رسولِ مقبول محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم
حضرت مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم
حضرت خواجہ حسن بصری علیہ الرحمہ
حضرت خواجہ حبیب عجمی علیہ الرحمہ
حضرت داؤد طائی علیہ الرحمہ
حضرت معروف کرخی علیہ الرحمہ
حضرت خواجہ سری سقطی علیہ الرحمہ
حضرت جنید بغدادی علیہ الرحمہ
حضرت ابو بکر شبلی علیہ الرحمہ
حضرت شیخ عبدالعزیز تمیمی علیہ الرحمہ
حضرت عبدالواحد تمیمی علیہ الرحمہ
حضرت ابوالفرج محمد ترتوسی علیہ الرحمہ
حضرت شیخ ابوالحسن ہنقاری علیہ الرحمہ
حضرت ابو سعید مخزومی علیہ الرحمہ
حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی علیہ الرحمہ
حضرت سید عبدالرزاق علیہ الرحمہ
حضرت سید شریف الدین قتال علیہ الرحمہ
حضرت سید عبدالوهاب علیہ الرحمہ
حضرت سید شاہ بہاؤالدین علیہ الرحمہ
حضرت سید شاہ عقیل علیہ الرحمہ
حضرت سید شمس الدین سہرائی علیہ الرحمہ
حضرت سید شاہ گدا رحمان علیہ الرحمہ
حضرت سید شاہ شمس الدین عارف علیہ الرحمہ
حضرت سید شاہ گدا رحمان ثانی علیہ الرحمہ
حضرت سید شاہ فضیل علیہ الرحمہ
حضرت سید شاہ کمال کیتھلی علیہ الرحمہ
حضرت سید شاہ سکندر علیہ الرحمہ
حضرت مجدد الف ثانی سرہندی رحمۃ اللہ علیہ
حضرت محمد معصوم رحمۃ اللہ علیہ
حضرت خواجہ محمد نقشبند رحمۃ اللہ علیہ
حضرت خواجہ محمد زبیر رحمۃ اللہ علیہ
حضرت خواجہ قطب الدین رحمۃ اللہ علیہ
حضرت حافظ جمال اللہ شاہ رحمۃ اللہ علیہ
حضرت شاہ درگاہی رحمۃ اللہ علیہ
حضرت سید احمد علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ
حضرت پیر روشن ضمیر شاہ جی محمد شیر میاں رحمۃ اللہ علیہ
سلسلۂ چشتیہ
حضرت رسولِ مقبول محمد مصطفیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام
حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم
حضرت خواجہ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ
حضرت عبدالواحد بن زید رحمۃ اللہ علیہ
حضرت فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ
حضرت ابراہیم بن ادہم رحمۃ اللہ علیہ
حضرت حذیفہ مرعشی شامی رحمۃ اللہ علیہ
حضرت ہبیرہ بصری رحمۃ اللہ علیہ
حضرت ممشاد علی دنوری رحمۃ اللہ علیہ
حضرت ابو اسحاق شامی چشتی رحمۃ اللہ علیہ
حضرت خواجہ ابو احمد چشتی رحمۃ اللہ علیہ
حضرت خواجہ ابو محمد چشتی رحمۃ اللہ علیہ
حضرت خواجہ ابو یوسف چشتی رحمۃ اللہ علیہ
حضرت خواجہ مودود چشتی رحمۃ اللہ علیہ
حضرت حاجی شریف زندانی رحمۃ اللہ علیہ
حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ
حضرت خواجہ معین الدین حسن چشتی رحمۃ اللہ علیہ
حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ
حضرت بابا فرید الدین گنجِ شکر رحمۃ اللہ علیہ
حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ
حضرت خواجہ نصیر الدین چراغ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ
حضرت جلال الدین مخدوم جہانیاں جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ
حضرت سید اجمل بحرائچی رحمۃ اللہ علیہ
حضرت پیر بڈھن بحرائچی رحمۃ اللہ علیہ
حضرت درویش محمد بن قاسم اوَدھی رحمۃ اللہ علیہ
حضرت شیخ عبدالقدوس گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ
حضرت شیخ رکن الدین گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ
حضرت شیخ عبدالاحد فاروقی رحمۃ اللہ علیہ
حضرت مجدد الف ثانی سرہندی رحمۃ اللہ علیہ
حضرت محمد معصوم رحمۃ اللہ علیہ
حضرت خواجہ محمد نقشبند رحمۃ اللہ علیہ
حضرت خواجہ محمد زبیر رحمۃ اللہ علیہ
حضرت خواجہ قطب الدین رحمۃ اللہ علیہ
حضرت حافظ جمال اللہ شاہ رحمۃ اللہ علیہ
حضرت شاہ درگاہی رحمۃ اللہ علیہ
حضرت سید احمد علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ
حضرت پیر روشن ضمیر شاہ جی محمد شیر میاں رحمۃ اللہ علیہ
سلسلۂ نقشبندیہ
حضرت رسولِ مقبول محمد مصطفیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ
حضرت قاسم بن محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام
حضرت بایزید بسطامی علیہ الرحمہ
حضرت خواجہ ابوالحسن خرقانی علیہ الرحمہ
حضرت ابو علی فارمدی علیہ الرحمہ
حضرت خواجہ یوسف ہمدانی علیہ الرحمہ
حضرت خواجہ عبدالخالق علیہ الرحمہ
حضرت خواجہ عارف علیہ الرحمہ
حضرت خواجہ محمود علیہ الرحمہ
حضرت خواجہ عزیزان علیہ الرحمہ
حضرت خواجہ بابا سماسی علیہ الرحمہ
حضرت امیر کلال علیہ الرحمہ
حضرت خواجہ بہاؤالدین علیہ الرحمہ
حضرت خواجہ علاؤالدین عطار علیہ الرحمہ
حضرت خواجہ یعقوب علیہ الرحمہ
حضرت خواجہ عبیداللہ علیہ الرحمہ
حضرت خواجہ محمد زاہد ولی علیہ الرحمہ
حضرت درویش محمد علیہ الرحمہ
حضرت خواجہ محمد علیہ الرحمہ
حضرت خواجہ عبدالباقی علیہ الرحمہ
حضرت مجدد الف ثانی سرہندی رحمۃ اللہ علیہ
حضرت محمد معصوم رحمۃ اللہ علیہ
حضرت خواجہ محمد نقشبند رحمۃ اللہ علیہ
حضرت خواجہ محمد زبیر رحمۃ اللہ علیہ
حضرت خواجہ قطب الدین رحمۃ اللہ علیہ
حضرت حافظ جمال اللہ شاہ رحمۃ اللہ علیہ
حضرت شاہ درگاہی رحمۃ اللہ علیہ
حضرت سید احمد علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ
حضرت پیر روشن ضمیر شاہ جی محمد شیر میاں رحمۃ اللہ علیہ
سلسلۂ مداریہ
حضرت رسولِ مقبول محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم
حضرت مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم
حضرت خواجہ حسن بصری رضی اللہ عنہ
حضرت خواجہ حبیب عجمی رضی اللہ عنہ
حضرت بایزید بسطامی رضی اللہ عنہ
حضرت سید بدیع الدین قطب المدار رضی اللہ عنہ
حضرت سید اجمل بحرائچی رحمۃ اللہ علیہ
حضرت پیر بڈھن بحرائچی رحمۃ اللہ علیہ
حضرت درویش محمد بن قاسم اوَدھی رحمۃ اللہ علیہ
حضرت شیخ عبدالقدوس گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ
حضرت شیخ رکن الدین گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ
حضرت شیخ عبدالاحد فاروقی رحمۃ اللہ علیہ
حضرت مجدد الف ثانی سرہندی رحمۃ اللہ علیہ
حضرت محمد معصوم رحمۃ اللہ علیہ
حضرت خواجہ محمد نقشبند رحمۃ اللہ علیہ
حضرت خواجہ محمد زبیر رحمۃ اللہ علیہ
حضرت خواجہ قطب الدین رحمۃ اللہ علیہ
حضرت حافظ جمال اللہ شاہ رحمۃ اللہ علیہ
حضرت شاہ درگاہی رحمۃ اللہ علیہ
حضرت سید احمد علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ
حضرت پیر روشن ضمیر شاہ جی محمد شیر میاں رحمۃ اللہ علیہ
حضرت شاہ جی میاں کے تمام پیر و مرشد بھی اعلیٰ مقام رکھتے تھے۔ انہی میں ایک حافظ شاہ جمالُ اللہ، جو کہ حضور غوثُ الثقلین محبوبِ سبحانی شیخ عبدالقادر جیلانی کے خاص پوتے ہیں، حافظ شاہ جمالُ اللہ صاحب حضور غوثِ پاک ہی کے حکم سے ہندستان آئے۔
حضرت حافظ شاہ جمالُ اللہ کی ابتدائی حالت یہ ہے جن کے بارے میں خود شاہ جی میاں فرماتے ہیں: کہ حافظ شاہ جمالُ اللہ پیدائشی ولی تھے اور ابتدا ہی سے ذکر و شغل و مراقبے میں وقت بسر کرتے تھے۔ مخلوق سے علیحدگی پسند فرماتے تھے اور اکثر جنگل میں رہا کرتے تھے، اور زندگی کے ابتدائی حال میں مداریہ خاندان سے حافظ شاہ جمالُ اللہ کو فیض حاصل تھا۔
حضور شاہ جی میاں کا حضرت احمد علی شاہ علیہ الرحمہ سے مرید ہونے کا واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ حضرت احمد علی شاہ بھٹپورہ سے پیلی بھیت تشریف لائے۔ حضرت شاہ جی میاں آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ملاقات ہوتے ہی حضرت احمد علی شاہ صاحب علیہ الرحمہ نے آپ کو “شاہ جی میاں” کا لقب عطا کیا اور فرمایا: ’’آئیے شاہ جی میاں! بیعت حاصل کیجیے۔‘‘ حضور شاہ جی میاں حاضر ہوئے۔ احمد علی شاہ صاحب علیہ الرحمہ نے اپنی جیب سے ایک روپیہ نکال کر خادم کو دیا اور فرمایا: ’’اس کے بتاشے لے آؤ۔‘‘
غرض یہ کہ حضرت شاہ جی میاں رحمۃُ اللہ علیہ کو بیعت سے ممتاز فرما کر خلافت دی اور اپنا تہبند اسی وقت حضرت شاہ جی میاں کو عطا فرمایا اور فرمایا: ’’اسے باندھ لو۔‘‘ آپ نے اسی وقت وہ تہبند لے لیا اور خود ہی باندھ لیا۔ حضرت شاہ جی میاں علیہ الرحمہ اپنی زبانِ مبارک سے فرماتے تھے کہ ’’مجھ کو یہ معلوم دیا کہ کسی نے بڑا پہاڑ میرے جسم پر رکھ دیا اور اس کی گرانی اور بوجھ کی وجہ سے اٹھا بیٹھا نہیں جاتا اور میں بے ہوش ہو گیا، معرفت کے سمندر میں غرق ہو گیا۔‘‘
سبحان اللہ! کیا شان ہے اولیائے اللہ کی! جسے چاہتے ہیں ایک لمحے میں زمین سے فلک پر اور فلک سے عرشِ مُعلّیٰ تک پہنچا دیتے ہیں اور تاجدارِ مدینہ کا جلوہ دکھا کر اللہ سے ملاتے ہیں۔
پیلی بھیت کی خوش قسمتی
پیلی بھیت کا شاید ہی کوئی گھر ہو جو آپ کے فیض سے محروم ہو۔ آج بھی آپ کی خانقاہ سے علم، تعلیم اور روحانیت کا نور بٹ رہا ہے۔
وصالِ شریف
آپ نے پوری زندگی علم، محبت اور فیض بانٹا۔ ٥ ذی الحجہ ۱۳۲۴ ہجری کو آپ اس فانی دنیا سے رخصت ہوئے۔
آپ کا مزار مبارک محلہ شیر محمد، پیلی بھیت میں واقع ہے۔
مزید معلومات کے لیے ان کتابوں کا مطالعہ فرمائیں
مسالک السالکین
بشہود الغیوب
سیرتِ مشائخِ قادریہ قدیریہ
سوانحِ عمری حضور شاہ جی میاں
دعا
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اولیائے اللہ کی زندگی پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
ہمارے دلوں میں علم، محبت، ادب اور خلوص بھر دے۔
ہماری زندگی میں برکت، راحت، رحمت اور نور پیدا فرمائے۔
اور ہمیں دینِ حق کی خدمت کی قبولیت بخش دے۔
آمین۔ یا رب العالمین۔
مداری میڈیا کا تعارف
مداری میڈیا ایک بااعتماد اور روحانی اسلامی علم کا پلیٹ فارم ہے، جہاں صوفی تاریخ، تصوف، اولیائے کرام کے حالات، مداریہ سلسلے کی معلومات، نعت و منقبت اور روح کو سکون دینے والے مضامین صاف اور مؤثر زبان میں پیش کیے جاتے ہیں۔
ہماری کوشش ہے کہ اصل صوفیانہ تعلیمات ہر انسان کے دل تک پہنچیں اور اس کی زندگی میں نور بھر دیں۔
ہم سے جڑے رہیں
ہماری پوسٹیں شیئر کریں، اس علمی سفر میں دوسروں کو بھی شامل کریں۔
مداری میڈیا کو آگے بڑھانے میں آپ کا تعاون ہمارے لیے نیکی اور دعا کا سامان بنے گا۔
اللہ تعالیٰ آپ کی محبت، خیر خواہی اور خدمت کو قبول فرمائے۔ جزاکمُ اللہ خیراً۔





