کیا فرماتے ہیں علماے دین و مفتیان کرام مسئلہ ذیل میں کہ اگر کوئی شخص کسی نیک کام کام میں کچھ وقف کرے اور وقف کرنے کے ساتھ ساتھ کوئی شرط بھی لگادے تو کیا شرط کا پورا کرنا ضروری ہوگا یا نہیں،مدلل جواب سے نواز کر مشکور ہوں۔بینوا توجروا۔
سائل:عظیم وقار
مرادآباد
الجواب
واقف کی شرط نص کا درجہ رکھتی ہے،اگر واقف کوئی شرط لگا دے تو اس کا پورا کرنا ضروری ہے،اس کی شرط سے انحراف جائز نہیں مگر اس شرط سے شریعت کا خلاف نہ ہو،اگر وہ شریعت کے خلاف ہے تو وہ شرط معتبر نہیں ہوگی۔
غمز عیون البصائر میں ہے
شرط الواقف يجب إتباعهم لقولهم شرط الواقف كنص الشارع أى فى وجوب العمل به إلا فى مسائل أقول يزاد عليه مسألة و هي إذا نص الواقف على أن أحدا لا يشارك الناظر فى الكلام فى هذا الوقف و رأى القاضي أن يضم إليه مشارفا يجوز له ذلك كالوصي إذا ضم إليه غيره حيث يصح كذا فى أنفع الوسائل.ملتقطا”
[غمز عيون البصائر مع الاشياه و النظائر،كتاب الوقف،ج:٢،ص:٢٢٨،دار الكتب العلمية بيروت]
رد المحتار میں ہے
“إن شرائط الوقف معتبرة إذا لم تخالف الشرع و هو مالك فله أن يجعل ماله حيث شاء مالم يكن معصية و له أن يخص صنفا من الفقراء و كذا سيأتي فروع الفصل الأول أن قولهم شرط الواقف كنص الشارع أى فى المفهوم و الدلالة و وجوب العمل به”
[رد المحتار،ج:٦،ص:٥٥٩،كتاب الوقف/مطلب فى نقل كتب الوقف من محلها،دار عالم الكتب رياض]
والله تعالیٰ اعلم۔
کتبه
اکبر خان مداری غفر لہ
نزیل حال سعودی عربیہ (حجاز شریف)
1/ شوال المکرم (یوم ولادت حضرت قطب المدار قدس سرہ) 1443ھ
ماخوذ : فتاوی مداریہ ، جلد اول ، صفحہ ٥٧٤






