madaarimedia

ذکر کی اہمیت و فضیلت

حسین نظاروں سے سجی محفل کاینات جس کی رونق و رعنائی اپنی طرف کھینچتی ہے آبشاروں کے بہاروں کے پُھولوں کے دلکشا مناظر دعوت فکر ونظر دے رہے ہیں کہ کوئی خالق ہے جو اس نظام کو اپنے اشاروں پر چلا رہاہے ہر چلنے اور گھومنے والی چیز اللہ پاک کی تسبیح کے سہارے جیتی اور چلتی ہے

مامن شیء الایسبح بحمدہ کوئی ایسی چیر نہیں ہے جو اللہ کی تسبیح نہ بیان کرتی ہو جب ساری دنیا اور دنیا کی چیزیں اللہ پاک کی تسبیح وتقدیس بیان کرتی ہیں تو اس کی فضیلتیں کتنی ہونگی قرآن واحادیث کی روشنی میں ہم اسے دیکھیں تو ہمیں معلوم ہوتا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جا بجا اس کا تذکرہ فرمایا ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں اس کی فضیلتیں بیان ہو رہی ہیں

اللہ تبارک وتعالی فرماتاہے: یٰاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوا اللّٰهَ ذِكْرًا كَثِیْرًا(41) ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ کو بہت زیادہ یاد کرو , اے ایمان والو اللہ کا خوب خوب ذکر کیا کرو- قران مقدسہ کی یہ ایت کریمہ ہم مسلمانوں کو یہ حکم دے رہی ہے کہ ہم اپنے رب کا ذکر خوب کیا کریں کیونکہ یہ ذکر ہی ہے کہ جس سے دلوں کو اطمینان حاصل ہوتا ہے اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَطْمَىٕنُّ الْقُلُوْبُﭤ(28) ترجمہ:سن لو! اللہ کی یاد ہی سے دل چین پاتے ہیں

روح کو غذا حاصل ہوتی ہے عقل و خرد کو توانائی حاصل ہوتی ہے ذکر الھی وہ ہے کہ اللہ تعالی اس کے صدقے میں ذاکرین کو تمام برکات و حسنات سے نوازتا ہے اللہ تعالی کا ذکر کرنا اس کی رضا حاصل کرنے کا ذریعہ ہے اس کی برکت سے اللہ تعالی کا قرب نصیب ہوتا ہے معرفت الہی کے دروازے کھلتے ہیں ذکر کرنے والے کو اللہ تعالی یاد فرماتا ہے کثرت سے ذکر کرنے والے وہ لوگ ہیں کہ جن کو اللہ تعالی پسند فرماتا ہے ذکر الھی اللہ تعالی کے عذاب سے نجات دلاتا ہے ذکر بندے اور جہنم کے درمیان آڑ ہے ذکر کرنے والا قیامت کے دن کی حسرت سے محفوظ ہو جاتا ہے ذکر کرنے والا خود بھی سعادت مند ہوتا ہے اور اس کے ساتھ بیٹھنے والا بھی اس سے سرفراز ہوتا ہے کثرت سے ذکر کرنا بدبختی سے امان ہے کثرت سے ذکر کرنے والے بندے کو قیامت کے دن اللہ تعالی کی بارگاہ میں افضل اور ارفع درجہ نصیب ہوگا ذکر کرنا سکینہ نازل ہونے اور رحمت چھا جانے کا سبب ہے ذکر کرنا گناہوں اور خطاؤں کو مٹاتا ہے اللہ تعالی کے ذکر کی برکت سے بندے کا نفس شیطان سے محفوظ رہتا اور شیطان اس سے دور بھاگتا ہے غیبت چغلی جھوٹ اور فحش کلامی سے زبان محفوظ رہتی ہے اللہ کے ذکر پر مشتمل کلام بندے کے حق میں مفید ہے ذکر دنیا میں قبر میں اور حشر میں ذکر کرنے والے کے لیے نور ہوگا یہ دل سے غم اور حزن کو زائل کر دیتا ہے ذکر دل کے لیے فرحت اور سرور کا باعث ہے ذکر دل کی حیات کا سبب ہے ذکر کرنا دل اور بدن کو مضبوط کرتا ہے چہرے اور دل کو منور کرتا ہے ذکر کرنا دل اور روح کی غذا ہے ذکردل کے زنگ کو دور کرتا ہےذکر دل کی سختی کو ختم کر دیتا ہے ذکر بیمار دلوں کے لیے شفا کا باعث ہے ذکر کرنے والا زندہ کی طرح ہے اورنہ کرنے والا مردہ کی طرح ہے ذکر آسان اور افضل عبادت ہے ذکر کرنے سے اللہ تعالی کی اطاعت پر مدد ملتی ہے مشکلات اسان ہوتی ہیں اور تنگیاں دور ہوتی ہیں فرشتے ذکر کرنے والے کے لیے مغفرت طلب کرتے ہیں ذکر کی مجلسیں اس کے فرشتوں کی مجلسیں ہیں اللہ تعالی اپنے فرشتوں کے سامنے ذکر کرنے والوں کے ذریعے مباہات فرماتا ہے کثرت سے ذکر کرنے والا منافق نہیں ہو سکتاذکر کرنے والے بندوں کے دل سے مخلوق کا خوف نکل جاتا ہے ذکر شکر کی بنیاد ہے ذکر کرنا رزق ملنے کا سبب ہے ذکر میں مشغول رہنے والا مانگنے والوں سے زیادہ اللہ تعالی کی عطا پاتا ہے کثرت سے ذکر کرنا فلاح و کامیابی کا سبب ہے ہمیشہ ذکر کرنے والا جنت میں داخل ہوگا ذکر کے حلقے دنیا میں جنت کے باغات ہیں

اور یہی وہ عبادت خاص ہے جس کے لیے اللہ تعالی نے قران مقدسہ میں ارشاد فرمایا: یٰاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوا اللّٰهَ ذِكْرًا كَثِیْرًا(41) ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ کو بہت زیادہ یاد کرو۔

اس ایت میں ایمان والوں کو کثرت کے ساتھ اللہ تعالی کا ذکر کرنے کی تعلیم دی گئی ہے ذکر میں کلمہ طیبہ کا ورد کرنا اللہ تعالی کی حمد اور ثنا بیان کرنا اس کی بڑائی بیان کرنا اس کے تعریف کرنا درود پڑھنا استغفار کرنا داخل ہے اور کثرت کے ساتھ ذکر کرنے سے ایک مراد یہ ہے کہ صبح یا شام سردی ہو یا گرمی تمام اوقات میں اللہ تعالی کا ذکر کرو یونہی تم خشکی میں ہو یا سمندر میں ہموار زمین پہ ہو یا پہاڑوں پر تمام جگہوں میں اللہ تعالی کا ذکر کرو اسی طرح تم مسافر ہو یا نہ ہو تنگدست ہو یا بیمار لوگوں کے سامنے ہو یا تنہائی میں کھڑے ہو یا بیٹھے ہو کروٹ کے بل لیتے ہو ہر حال میں اللہ تعالی کا ذکر کرو۔ جیسا کے قرآن مقدسہ میں ارشاد ہے وَاذْكُرْ رَّبَّكَ فِیْ نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَّ خِیْفَةً وَّ دُوْنَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَ الْاٰصَالِ وَ لَا تَكُنْ مِّنَ الْغٰفِلِیْنَ(205) ترجمہ: اور اپنے رب کو اپنے دل میں یاد کروگڑگڑاتے ہوئے اور ڈرتے ہوئے اور بلندی سے کچھ کم آواز میں ،صبح و شام، اور غافلوں میں سے نہ ہونا۔

اسی طرح دوسری جگہ ارشاد فرمایا اللہ تعالی نے
الَّذِیْنَ یَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ قِیٰمًا وَّ قُعُوْدًا وَّ عَلٰى جُنُوْبِهِمْ وَ یَتَفَكَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِۚ-رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًاۚ-سُبْحٰنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ(191) ترجمہ: (کنزالعرفان) جو کھڑے اور بیٹھے اور پہلوؤں کے بل لیٹے ہوئے اللہ کو یاد کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں غور کرتے ہیں۔ اے ہمارے رب!تو نے یہ سب بیکار نہیں بنایا۔ تو پاک ہے، تو ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچالے۔

عبادت میں اخلاص کے ساتھ عبادت قبول ہونے کی اور عبادت کی توفیق ملنے کی دعا کر کے اللہ تعالی کا ذکر کرو گناہوں سے باز رہکر ان سے توبہ اور استغفار کر کے اللہ تعالی کا ذکر کرو نعمت پر اللہ تعالی کا شکر کر کے اس کا ذکر کرو مصیبت پر صبر کر کے اللہ تعالی کا ذکر کیا کرو پریشانیوں میں اللہ کو یاد کر کے دعائیں کر کے اس کا ذکر کیا کرو.

قرآن پاک میں دیگر آیات قرآنی اور ذکر کرنے کی فضیلت

1۔ فَاذْکُرُوْنِيْٓ اَذْکُرْکُمْ وَاشْکُرُوْا لِيْ وَلَا تَکْفُرُوْنِo (البقرۃ، 2 : 152) ’’سو تم مجھے یاد کیا کرو میں تمہیں یاد رکھوں گا اور میرا شکر ادا کیا کرو اور میری ناشکری نہ کیا کروo‘

2۔ فَاِذَا قَضَيْتُمُ الصَّلٰوةَ فَاذْکُرُو اللهَ قِیٰمًا وَّ قُعُوْدًا وَّ عَلٰی جُنُوْبِکُمْ۔ (النساء، 4 : 103) ’’پھر اے (مسلمانو!) جب تم نماز ادا کر چکو تو اللہ کو کھڑے اور بیٹھے اور اپنے پہلوؤں پر (لیٹے ہر حال میں) یاد کرتے رہو۔‘‘

یٰاَیُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا لَقِيْتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوْا وَاذْکُرُوا اللهَ کَثِيْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَo (الأنفال، 8 : 45) ’’اے ایمان والو! جب (دشمن کی) کسی فوج سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہا کرو اور اللہ کو کثرت سے یاد کیا کرو تاکہ تم فلاح پا جاؤo‘‘

4۔ اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ تَطْمَئِنُّ قُلُوْبُھُمْ بِذِکْرِ اللهِ ط اَلاَ بِذِکْرِ اللهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُo (الرعد، 13 : 28) ’’جو لوگ ایمان لائے اور ان کے دل اللہ کے ذکر سے مطمئن ہوتے ہیں، جان لو کہ اللہ ہی کے ذکر سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہےo‘‘

5۔ وَلَذِکْرُ اللهِ اَکْبَرُ ط وَاللهُ یَعْلَمُ مَا تَصْنَعُوْنَo (العنکبوت، 29 : 45) ’’اور واقعی اللہ کا ذکر سب سے بڑا ہے، اور اللہ ان (کاموں) کو جانتا ہے جو تم کرتے ہوo‘‘

6۔ یٰٓاَیُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اذْکُرُوا اللهَ ذِکْرًا کَثِيْرًاo وَّسَبِّحُوْهُ بُکْرَةً وَّاَصِيْلًاo (الأحزاب، 33 : 41) ’’اے ایمان والو! تم اللہ کا کثرت سے ذکر کیا کروo اور صبح و شام اسکی تسبیح کیا کروo‘‘

یاایُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْآ اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوةِ مِنْ يَّوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا اِلٰی ذِکْرِ اللهِ وَ ذَرُوا الْبَيْعَ ط ذٰلِکُمْ خَيْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَo فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلوٰةُ فَانْتَشِرُوْا فِی الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللهِ وَاذْکُرُوا اللهَ کَثِيْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَo (الجمعۃ، 62 : 9، 10) ’’اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن (جمعہ کی) نماز کے لیے اذان دی جائے تو فوراً اللہ کے ذکر (یعنی خطبہ و نماز) کی طرف تیزی سے چل پڑو اور خرید و فروخت (یعنی کاروبار) چھوڑ دو۔ یہ تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہوo پھر جب نماز ادا ہوچکے تو زمین میں منتشر ہوجاؤ اور (پھر) اللہ کا فضل (یعنی رزق) تلاش کرنے لگو اور اللہ کو کثرت سے یاد کیا کرو تاکہ تم فلاح پاؤo‘‘

8۔ یٰٓاَیُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُلْهِکُمْ اَمْوَالُکُمْ وَلَآ اَوْلَادُکُمْ عَنْ ذِکْرِ اللهِ ج وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَo (المنفقون، 63 : 9) ’’اے ایمان والو! تمہارے مال اور تمہاری اولاد (کہیں) تمہیں اللہ کی یاد سے ہی غافل نہ کردیں، اور جو شخص ایسا کرے گا تو وہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں۔

قران مقدسہ کی کئی آیات میں جہاں ذکر کی فضیلت بیان کی گئی ہے وہیں حدیث پاک میں بھی اللہ کے نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ذکر کے فضائل بیان فرمائے ہیں انہی میں سے ایک حدیث حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا کسی شخص کا کوئی عمل ایسا نہیں جو اللہ تعالی کے ذکر سے زیادہ اس کے حق میں اللہ تعالی کے عذاب سے نجات دلانے والا ہو لوگوں نے عرض کیا کیا اللہ عزوجل کی راہ میں جہاد بھی نہیں ارشاد فرمایا اللہ تعالی کی راہ میں جہاد بھی ذکر کے مقابلے میں زیادہ نجات کا باعث نہیں مگر یہ کہ مجاہد اپنی تلوار سے خدا کے دشمنوں پر اس قدر وار کرے کہ تلوار ٹوٹ جائے (کتاب دعوت الکبیر باب ماجا فی فضل دعا ذکر)

اسی طرح حضرت ابو داؤد رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا کیا میں تمہیں ایسے بہترین اعمال نہ بتا دوں جو اللہ تعالی کے نزدیک بہت ستھرے اور تمہارے درجے بہت بلند کرنے والے اور تمہارے لیے سونا چاندی خیرات کرنے سے بہتر ہوں اور تمہارے لیے اس سے بھی بہتر ہو کہ تم دشمن سے جہاد کر کے ان کی گردنیں مارو اور وہ تمہیں شہید کریں صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم میں عرض کی جی ہاں ارشاد فرمایا وہ عمل اللہ تعالی کا ذکر کرنا ہے ۔ (ترمذی کتاب الدعوات ان رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم)

اسی طرح ایک اور حدیث پاک حضرت معاذ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم سے دریافت کیا کیا مجاہدین میں سے کو

اَلْأَحَادِيْثُ النَّبَوِيَّةُ
1۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ ﷺ : یَقُوْلُ اللهُ تَعَالَی : أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي وَأَنَا مَعَهُ إِذَا ذَکَرَنِي فَإِنْ ذَکَرَنِي فِي نَفْسِهِ ذَکَرْتُهُ فِي نَفْسِي، وَإِنْ ذَکَرَنِي فِي مَـلَإٍ ذَکَرْتُهُ فِي مَـلَإٍ خَيْرٍ مِنْهُمْ وَإِنْ تَقَرَّبَ إِلَيَّ بِشِبْرٍ تَقَرَّبْتُ إِلَيْهِ ذِرَاعًا وَإِنْ تَقَرَّبَ إِلَيَّ ذِرَاعًا تَقَرَّبْتُ إِلَيْهِ بَاعًا وَإِنْ أَتَانِي یَمْشِي، أَتَيْتُهُ هَرْوَلَةً۔ (مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ۔)
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرا بندہ میرے متعلق جیسا گمان رکھتا ہے میں اس کے ساتھ ویسا ہی معاملہ کرتا ہوں۔ جب وہ میرا ذکر کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔ اگر وہ اپنے دل میں میرا ذکر (ذکر خفی) کرے تو میں بھی(اپنے شایان شان) خفیہ اس کا ذکر کرتا ہوں، اور اگر وہ جماعت میں میرا ذکر (ذکر جلی) کرے تو میں اس کی جماعت سے بہتر جماعت میں اس کا ذکر کرتا ہوں۔ اگر وہ ایک بالشت میرے نزدیک آئے تو میں ایک بازو کے برابر اس کے نزدیک ہو جاتا ہوں۔ اگر وہ ایک بازو کے برابر میرے نزدیک آئے تو میں دو بازؤوں کے برابر اس کے نزدیک ہو جاتا ہوں اور اگر وہ میری طرف چل کر آئے تو میں اس کی طرف دوڑ کر آتا ہوں۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَأَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضي الله عنھما : أَنَّھُمَا شَھِدَا عَلَی النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ قَالَ : لَا یَقْعُدُ قَوْمٌ یَذْکَرُوْنَ اللهَ عزوجل إِلَّا حَفَّتْھُمُ الْمَلَائِکَةُ وَغَشِیَتْھُمُ الرَّحْمَةُ، وَنَزَلَتْ عَلَيْھِمُ السَّکِيْنَةُ، وَذَکَرَھُمُ اللهُ فِيْمَنْ عِنْدَهُ۔(رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ، وَقَالَ أَبُو عِيْسَی : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ۔) ’’حضرت ابو ہریرہ اور ابو سعید خدری رضی اللہ عنھما دونوں نے حضور نبی اکرم ﷺ کے بارے میں گواہی دی کہ آپ ﷺ نے فرمایا : جب بھی لوگ اللہ تعالیٰ کے ذکر کے لئے بیٹھتے ہیں انہیں فرشتے ڈھانپ لیتے ہیں اور رحمت انہیں اپنی آغوش میں لے لیتی ہے اور ان پر سکینہ (سکون و طمانیت) کا نزول ہوتا ہے اللہ تعالیٰ ان کا ذکر اپنی بارگاہ کے حاضرین میں کرتا ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام مسلم اور ترمذی نے روایت کیا ہے اور امام ترمذی کہتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

عَنْ أَنَسٍ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : لَا تَقُوْمُ السَّاعَةُ عَلَی أَحَدٍ یَقُوْلُ : اللهُ، اللهُ۔ رَوَاهُ مُسْلِمٌ۔ وَفِي رِوَایَةِ عَنْهُ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : لَا تَقُوْمُ السَّاعَةُ حَتَّی لَا یُقَالَ فِي الْأَرْضِ : اللهُ، اللهُ۔ رَوَاهُ مُسْلِمٌ۔ ’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ اللہ کہنے والے کسی شخص پر قیامت نہ آئے گی (یعنی جب قیامت آئے گی تو دنیا میں کوئی بھی اللہ اللہ کرنے والا نہ ہو گا)۔‘‘

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ قیامت اس وقت برپا ہو گی، جب دنیا میں اللہ اللہ کہنے والا کوئی نہ رہے گا۔‘‘ ان دونوں روایات کو امام مسلم نے ذکر کیا ہے۔

قارئین کرام۔ آپ نے دیکھا کہ قرآن و حدیث میں ذکر کی کیا اہمیت ہے کیا فضیلت ہے آئیے اب جانتے ہیں کہ ذکر کہتے کس کو ہیں اور ذکر کے اقسام کیا کیا ہیں

ذکر اللہ کی تعریف

ذِکرکے معنی یاد کرنا،یاد رکھنا،چرچا کرنا،خیرخواہی اورعزت و شرف کے ہیں۔ قرآنِ کریم میں ذِکر اِن تمام معنوں میں آیا ہوا ہے۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کو یادکرنا، اسے یاد رکھنا، اس کا چرچا کرنا اور اس کا نام لیناذِکراللہ کہلاتا ہے۔[1] (نجات دلانےوالےاعمال کی معلومات،صفحہ۱۷۳)

ذکراللہ کی مختلف اقسام (ذِکرﷲکی تین قسمیں ہیں)
(۱)ذِکر لسانی کہ بندہ زبان سے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا ذِکر کرے، اس میں تسبیح، تقدیس، ثنا، حمد، مدح، خطبہ، توبہ، اِستغفار، دُعا وغیرہ داخل ہیں۔

(۲)ذِکر قلبی کہ بندہ دل سے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا ذکر کرے، اس میں اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی نعمتوں کو یاد کرنا، اس کی عظمت وکبریائی اور اس کے دلائل قدرت میں غور کرنا، علمائے کرم رَحِمَہُمُ اللّٰہُ کا اِستنباط مسائل (قرآن وحدیث سے مسائل اَخذ کرنے) میں غور وفکر کرناداخل ہے ۔

(۳) ذِکر بالجوارح کہ بندہ مختلف اَعضائے جسم سے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا ذکر کرے۔جیسے حج کے لیے سفر کرنا، آنکھ کا خوفِ خدا میں رونا، کان کا ربّ تَعَالٰی کا نام سننا۔نماز تینوں قسم کے ذکر پر مشتمل ہے: تسبیح وتکبیر ثناء وقراءت تو ذکرلسانی ہے اور خشوع وخضوع اِخلاص ذِکر قلبی اور قیام رکوع وسجود وغیرہ ذِکر بالجوراح ہے۔ ٭ذِکرﷲ بالواسطہ بھی ہوتا ہے اور بلاواسطہ بھی۔

(۱)اﷲتَعَالٰی کی ذات و صفات کا تذکرہ بلاواسطہ ذِکرﷲ ہے۔

(۲) اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے محبوبوں کا محبت سے چرچا کرنا،اس کے دشمنوں کا برائی سے ذِکر کرنا سب بالواسطہ ذِکرﷲ ہیں۔ سارا قرآنِ پاک ذِکرﷲہے مگر اس میں کہیں تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی ذات و صفات مذکور ہیں،کہیں حضور نبی رحمت شفیع اُمت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

کے اَوصاف و محامد(تعریفیں)، کہیں کفار کے (بطورِ مذمت)تذکرے۔ذِکرﷲبہترین عبادت ہے اسی لیے اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور اس کے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اس کا تاکیدی حکم ارشاد فرمایا ہے۔ پھر ذِکر کی مزید دو صورتیں بھی ہیں:(۱)ذِکرخفی کہ بندہ دل میں یا آہستہ آوازسے ذِکراللہ کرے۔ (۲) ذِکر جلی یا ذِکر بالجہر کہ بندہ بلند آوازسے ذِکراللہ کرے۔بعض علماء کے نزدیک ذِکر خفی افضل تو بعض کے نزدیک ذِکر جلی افضل۔

 

لیکن عام طور پر عوام الناس میں ذکر کا جو طریقہ رائج ہے وہ یا تو تسبیح کے ذریعے تعداد کے ساتھ کرنا ذکر کا یا حلقہ پاک کرنا یہ عوام الناس میں رائج ہے اور مرغوب ہے۔ تسبیح و تحلیل کے ذریعے جو ذکر کیا جاتا ہے عام طور پر اسی کو ذکر خفی کہتے ہیں اور جو ذکر حلقہ فرما کر کیا جاتا ہے اس ذکر کو ذکر بالجہر کہتے ہیں اور ان تمام طریقوں سے ذکر کرنا اللہ کے نزدیک بہتر ہے اور اسی ذکر کو اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو کرنے کا حکم دیا ہے اسی طرح قران پاک کی تلاوت کرنا یہ بھی ذکر میں شامل ہے۔
بلکہ افضل عبادات میں سے ہے کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور جو کچھ اس میں ہے خدا کے ذکر کی تازگی کا سبب اور واسطہ ہے۔جاری۔۔

از قلم: قاضی سید محمد توثیق منصف جعفری مداری
صدر قاضی شہر مکن پور شریف
موبائل نمبر 7000827807


Search_Keywords
Zikr E Allah Ki Fazilat O Ahmiyat, zikr ki ahmiyat aur fazilat, Allah Ka Zikr Krny Ki Ahmiyat Aur Fazail, Zikr e ilahi – Allah Ke Zikr Ki Ahmiyat Aur Fazilat,

Leave a Comment

Related Post

Top Categories