حیات مبارکہ
سیدتنا خاتون جنت نورِ نگاہِ رحمۃ للعالمین حضرت فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیہا
سیدتنا خاتون جنت حضرت فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیہا’ سیدنا اعلیٰ حضرت پیارے نبی مکی مدنی صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدتنا ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی سب سے لاڈلی اور چہیتی صاحبزادی ہیں۔
ولادت و تربیت
آپ کی ولادت مباکہ 20 جمادی الثانی بروزجمعہ مکۂ مکرمہ میں ہوئی۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے وصال کے بعد پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کی تربیت و پرورش کے لیے حضرت فاطمہ بنت اسد رضی اللہ عنہا کا انتخاب فرمایا۔ جب ان کا بھی وصال ہو گیا تو اس وقت پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدتنا ام المومنین حضرت ام سلمیٰ رضی اللہ عنہا کو آپ کی تربیت کی ذمہ داری دی.
آپ کے مشہور القاب میں زھرا اور بتول ہیں۔ مشہور کنیت ام الائمہ، ام السبطین اور ام الحسنین ہیں۔
حضرت فاطمہ الزھرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی ابتدائی تربیت خود ہیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کی۔ اس کے علاوہ ان کی تربیت میں اولین مسلمان خواتین شامل رہیں۔ بچپن میں ہی آپکی کی والدہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا وصال ہو گیا۔ انہوں نے اسلام کا ابتدائی زمانہ دیکھا اور وہ تمام تنگی برداشت کی جو پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتدائی زمانہ میں کفار کے
ہاتھوں برداشت فرمائی۔
ایک روایت کے مطابق ایک مرتبہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ شریف میں حالتِ سجدہ میں تھے جب ابوجہل اور اس کے ساتھیوں نے آپ پر اونٹ کی اوجھڑی ڈال دی۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو خبر ملی تو آپ نے آ کر پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کمر شریف پانی سے دھوئی حالانکہ آپ اس وقت کم سن تھیں۔ اس وقت آپ روتی تھیں تو پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کو فرماتے جاتے تھے کہ اے جانِ پدر! رو نہیں اللہ تعالیٰ تیرے باپ کا مددگار ہے.
آپ کے بچپن ہی میں ہجرت کا واقعہ ہوا۔ مدینہ منورہ پہونچ کر پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید بن حارثہ اور حضرت ابو رافع کو 500 درھم اور اونٹ دے کر مکہ مکرمہ سے حضرت فاطمہ، حضرت فاطمہ بنت اسد، ام المومنین حضرت سودہ اور ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم کو بلوایا چنانچہ وہ کچھ دن بعد مدینہ طیبہ پہنچ گئیں۔ بعض دیگر روایات کے مطابق انہیں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بعد میں لے کر آئے۔
2 ہجری تک آپ حضرت فاطمہ بنت اسد کی زیرِ تربیت رہیں۔ 2ھ میں پیارے نبی نے ام المومنین حضرت ام سلمیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے عقد فرمایا تو حضرت فاطمہ کو ان کی تربیت میں دے دیا۔
حضرت ام سلمیٰ نے فرمایا کہ جب حضرت فاطمہ کو میرے سپرد کیا گیا تو میں نے انہیں ادب سکھانا چاہا مگر خدا کی قسم فاطمہ تو مجھ سے زیادہ مؤدب تھیں اور تمام باتیں مجھ سے بہتر جانتی تھیں۔
حضرت عمران بن حصین کی روایت ہے کہ ایک دفعہ میں پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھا تھا کہ حضرت فاطمہ جو ابھی کم سن تھیں تشریف لائیں۔ بھوک کی شدت سے ان کا رنگ متغیر ہو رہا تھا پیارے نبی نے دیکھا تو کہا کہ بیٹی ادھر آؤ۔ جب آپ قریب آئیں تو پیارے نبی نے دعا فرمائی کہ اے بھوکوں کو سیر کرنے والے پروردگار! اے پستی کو بلندی عطا کرنے والے مالک! فاطمہ کی بھوک کی شدت کو ختم فرما دے۔ اس دعا کے بعد حضرت فاطمہ کے چہرے کی زردی سرخی میں تبدیل ہو گئی، چہرے پر خون دوڑنے لگا اور آپ ہشاش بشاش نظر آنے لگیں۔ خود حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بیان ہے کہ اس کے بعد مجھے پھر کبھی بھوک کی شدت نے پریشان نہیں کیا۔
عقد نکاح
بعض روایات کے مطابق حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ اے علی خدا کا حکم ہے کہ میں فاطمہ کی شادی تم سے کر دوں۔ کیا تمہیں منظور ہے۔ انہوں نے کہا ہاں چنانچہ شادی ہو گئی۔ یہی روایت صحاح میں حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ اور حضرت ام سلمیٰ رضی اللہ عنہا نے بیان فرمائی ہے۔ ایک اور روایت میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ نے مجھے حکم فرمایا ہے کہ میں فاطمہ کا نکاح علی سے کردوں۔ بعض روایات کے مطابق حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خود خواہش کا اظہار فرمایا تو حضور نے قبول فرمالیا.
سیدنا امیر المومنین حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ و سیدتنا خاتون جنت حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کی شادی یکم ذی الحجہ 2ھ کو ہوئی۔ کچھ اور روایات کے مطابق سیدنا امام محمد باقر و سیدنا امام جعفر صادق رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نکاح رمضان میں اور رخصتی اسی سال ذی الحجہ میں ہوئی۔ شادی کے اخراجات کے لیے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی زرہ 500 درھم میں سیدنا امیر المومنین حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ بیچ دی اور بعد ازاں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے وہی زرہ تحفتاً انہیں لوٹادی۔ یہ رقم حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے کر دی جو حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا مہر قرار پایا۔ جبکہ بعض دیگر روایات میں مہر 480 درھم تھا۔
جہیز کے لیے پیارے نبی کریم نے حضرت مقداد ابن اسود کو رقم دے کر اشیاء خریدنے کے لیے بھیجا اور حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مدد کے لیے ساتھ بھیجا۔ انہوں نے چیزیں لا کر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سامنے رکھیں۔ اس وقت حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا بھی موجود تھیں۔ مختلف روایات میں جہیز کی فہرست میں ایک قمیص، ایک مقنع (یا خمار یعنی سر ڈھانکنے کے لیے کپڑا)، ایک سیاہ کمبل، کھجور کے پتوں سے بنا ہوا ایک بستر، موٹے ٹاٹ کے دو فرش، چار چھوٹے تکیے، ہاتھ کی چکی، کپڑے دھونے کے لیے تانبے کا ایک برتن، چمڑے کی مشک، پانی پینے کے لیے لکڑی کا ایک برتن(بادیہ)، کھجور کے پتوں کا ایک برتن جس پر مٹی پھیر دیتے ہیں، دو مٹی کے آبخورے، مٹی کی صراحی، زمین پر بچھانے کا ایک چمڑا، ایک سفید چادر اور ایک لوٹا شامل تھے۔ یہ مختصر جہیز دیکھ کر پیارے نبی کریم نے دعا فرمائی کہ اے اللہ ان پر برکت نازل فرما جن کے اچھے سے اچھے برتن مٹی کے ہیں۔ یہ جہیز اسی رقم سے خریدا گیا تھا جو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنی زرہ بیچ کر حاصل کی تھی.
نکاح کے کچھ ماہ بعد یکم ذی الحجہ کو آپ کی رخصتی ہوئی۔ رخصتی کے جلوس میں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اشہب نامی ناقہ پر سوار ہوئیں جس کے ساربان حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔
شادی کے بعد آپ گھر کا تمام کام خود کرتی تھیں مگر کبھی حرفِ شکایت زبان پر نہیں آیا۔ نہ ہی کوئی مددگار یا کنیز کا تقاضہ کیا۔ 7ھ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کنیز عنایت کی جو حضرت فضہ کے نام سے مشہور ہیں۔ ان کے ساتھ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے باریاں مقرر کی تھیں یعنی ایک دن وہ کام کرتی تھیں اور ایک دن حضرت فضہ کام کرتی تھیں۔
ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی شہزادی کے گھر تشریف لائے اور دیکھا کہ آپ بچے کو گود میں لیے چکی پیس رہی ہیں۔ پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک کام فضہ کے حوالے کر دو۔ آپ نے جواب دیا کہ بابا جان آج فضہ کی باری کا دن نہیں ہے۔
آپ کے اپنے شوہر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بھی مثالی تعلقات تھے۔ کبھی ان سے کسی چیز کا تقاضا نہیں کیا۔ ایک دفعہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا بیمار ہوئیں تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا کہ کچھ کھانے کو دل چاہتا ہو تو بتاؤ۔ آپ نے کہا کہ میرے پدر بزرگوار نے تاکید کی ہے کہ میں آپ سے کسی چیز کا سوال نہ کروں، ممکن ہے کہ آپ اس کو پورا نہ کرسکیں اور آپ کو رنج ہو۔ اس لیے میں کچھ نہیں کہتی۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب قسم دی تو انار کا ذکر کیا۔
آپ رضی اللہ عنہا نے کئی جنگیں دیکھیں جن میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نمایاں کردار ادا کیا مگر کبھی یہ نہیں چاہا کہ وہ جنگ میں شریک نہ ہوں اور پیچھے رہیں۔ اس کے علاوہ جنگ احد میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سولہ زخم کھائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک بھی زخمی ہوا مگر آپ نے کسی خوف و ہراس کا مظاہرہ نہیں کیا اور مرہم پٹی، علاج اور تلواروں کی صفائی کے فرائض سرانجام دیے۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کو دو بیٹوں اور دو بیٹیوں سے نوازا۔ دو بیٹے سیدنا حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور سیدنا حضرت امام حسین بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور بیٹیاں حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا و حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا تھیں۔
آپکے دونوں شہزادوں کو پیارے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنا بیٹا فرماتے تھے اور بہت پیار فرماتے تھے۔ اور فرمایا تھا کہ حسن اور حسین جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔ ان کے نام بھی خود نانا جان پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھے تھے.
حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فاطمہ میری جان کا حصہ ہے پس جس نے اسے ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔
حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک فاطمہ میری جان کا حصہ ہے۔ اسے تکلیف دینے والی چیز مجھے تکلیف دیتی ہے اور اسے مشقت میں ڈالنے والا مجھے مشقت میں ڈالتا ہے۔
حضرت ابو حنظلہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک فاطمہ میری جان کا حصہ ہے۔ جس نے اسے ستایا اس نے مجھے ستایا۔
حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضور انور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جب سفر کا ارادہ فرماتے تو اپنے اہل و عیال میں سے سب کے بعد جس سے گفتگو فرما کر سفر پر روانہ ہوتے وہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہوتیں اور سفر سے واپسی پر سب سے پہلے جس کے پاس تشریف لاتے وہ بھی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہوتیں.
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ وصال شریف سے قبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو نزدیک بلا کر ان کے کان میں کچھ فرمایا جس پر وہ رونے لگیں۔اس کے بعد آپ نے پھر سرگوشی کی تو آپ مسکرانے لگیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے سبب پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ پہلے میرے بابا نے اپنی وصال شریف کی خبر دی تو میں رونے لگی۔ اس کے بعد میرے بابا جان نے بتایا کہ سب سے پہلے میں ان سے جاملوں گی تو میں مسکرانے لگی۔
پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال شریف ایک عظیم سانحہ تھا جو حضرت فاطمۃ الزہراء کے لئے کوہ گراں ثابت ہوا اور پیارے نبی کی وصال شریف کے چھ ماہ بعد آپ کا وصال شریف ہوا۔
وصال شریف سے 2 ماہ قبل آپ سخت علیل ہوگئیں تو سیدنا امیر المومنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زوجۂ محترمہ نے آپ کی دیکھ بھال کی اور آخری وقت تو وہ آپ کے ساتھ رہیں اور انہوں نے ہی آپکو غسل بھی دیا.
آپ کی نماز جنازہ سیدنا امیر المومنین حضرت ابوبکر صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پڑھائی.
وصال شریف کی تاریخ 3 رمضان مبارک 11ھ ہے۔ آپ جنت البقیع میں مدفون ہیں جہاں پر ایک روضہ بھی بنا ہوا تھا جسے سعودی حکومت نے 8 شوال 1344ھ کو شہید کردیا۔
_پیشکش_
سید محمد انتساب حسین قدیری اشرفی مداری
سجادہ نشین آستانۂ عالیہ قدیریہ حضور مجدد مرادآبادی