میرے سرکار سے دل جسنے لگایا ہی نہیں
اپنے دل کو کبھی دل اس نے بنایا ہی نہیں
در سے محروم کبھی کوئی ہےٹالا ہی نہیں
انکے جیسا کوئی کونین میں داتا ہی نہیں
ذات وہ ذات ہے جس ذات کا سایا ہی نہیں
ان کے جیسا کوئی خالق نے بنایا ہی نہیں
جو وفا دار نہیں ہے شفیعء محشر کا
اس نے خوابیدہ مقدر کو جگایا ہی نہیں
ہر گھڑی ساتھ مرے رہتی ہے رحمت انکی
اسلیئے خود کو اکیلا میں سمجھتا ہی نہیں
ارض طائف سے صدا آج بھی یہ آتی ہے
جیسے سرکار ہیں ویسا کوئی پایا ہی نہیں
اپنے جیسا مرے سرکار کو جو کہتا ہے
اس سے بڑھکر کوئی دنیا میں کمینہ ہی نہیں
انبیاء اور بھی دنیا میں بہت آئے ہیں
عرش پہ رب نے کسی کو ہے بلایا ہی نہیں
جب سے کشتی پہ لکھا دیکھا ہے نام احمد
تب سے طوفاں مری کشتی سے الجھتا ہی نہیں
جب سے دیکھا ہے نگاہوں نے جمال خضراء
تب سے نظروں میں کوئی اورسمایا ہی نہیں
بحر طوفاں میں وہی لوگ ڈوب جاتے ہیں
جنکی کشتی پہ لکھا نام مصطفی ہی نہیں
یا نبی در پہ شرافت کو بلا لو اک دن
اس کے دل میں کوئی اب اور تمنا ہی نہیں
از نتیجہء فکر
مولانا شرافت علی شاہ
مداری بریلی شریف یو پی



