اب نصرت شہ کو جھولے میں اک ننھا مجاہد تڑپا ہے
کیا جانئے کیوں دکھیا ماں کا سینے میں کلیجہ دھڑکا ہے
پچھم میں شفق کی لالی ہے یا آگ لگی ہے خیموں میں
ہے شام غریباں کا منظر یا شب کا اندھیرا پھیلا ہے
اے سلسلۂ باطل مٹ جا زنجیر ہیں پائے عابد نے
اے چادر شب پردہ کرلے بے چادر بنت زہرہ ہے
رحمت ہے لئے انعام بقا یا عرش سے ٹوٹا ہے تارا
ہے نور کا روشن مینارہ ابن علی کا لاشہ ہے
نیزے کی بلندی پر سر ہے تکبیر کا نعرہ لب پر ہے
اعلان یزیدی ہے جھوٹا قرآن کا دعوی سچا ہے
اک آخری سجدہ کرنے کو شبیر چلے ہیں مقتل میں
کعبے کا تصور ہے دل میں آنکھوں میں نبی کا روضہ ہے
شبیر نے نصرت کو دی صدا لبیک لب حر سے نکلا
اک آن میں جنت ملتی ہے خالق کا کرم جب ہوتا ہے
شبیر کے بچوں کے محضر جو خشک گلے تر کرنہ سکا
احساس ندامت تو دیکھو پانی پانی خود دریا ہے