بنی ہے سرمۂ چشم فلک مٹی مدینے کی
فرشتوں کے ہے ماتھے کی چمک مٹی مدینے کی
اگر تو عرش اعظم کی حقیقت دیکھنا چا ہے
لگا آنکھوں میں اپنی بے جھجھک مٹی مدینے کی
شب اسرٰ لپٹ کر دامن نور مجسم سے
گئی ہے منزل قوسین تک مٹی مدینے کی
لٹائیں گے جو اپنے جان و دل صحرائے طیبہ پر
انہیں پہونچائے گی فردوس تک مٹی مدینے کی
غبار خاک طیبہ سے فضائں مہکی مہکی ہیں
بکھیرے ہے یہ کس گل کی مہک مٹی مدینے کی
مری تقدیر کی تاریکیاں کا فور ہوجائیں
ملے دیدار کو جو اک جھلک مٹی مدینے کی
خدایا قبر کی تاریکیاں مجھ کو نہ چھو پائیں
میرے ماتھے کو دے ایسی چمک مٹی مدینے کی
کبھی مل جائیں بوسے کے لیے نعلین آقا کی
ہے دل میں رکھتی اب بھی یہ للک مٹی مدینے کی
اسی کے رنگ کی ” مصباح ” رنگت ہے دو عالم میں
ہے چرخ دہر پہ نوری دھنک مٹی مدینے کی