تجلی روکش خلد بریں معلوم ہوتی ہے
ہمیں تو یہ مدینے کی زمیں معلوم ہوتی ہے
ہمیں تو یہ مدینے کی زمیں معلوم ہوتی ہے
تصور ذہن میں ہے ہجر طیبہ کا کسک دل میں
خلش ہوتی کہیں ہے اور کہیں معلوم ہوتی ہے
گئے بھی آئے بھی آقا مگر گردش زمانے کی
جہاں معلوم ہوتی تھی وہیں معلوم ہوتی ہے
ترے جلووں کے آگے اے جمالِ گنبد خضری
خمیده چاند تاروں کی جبیں معلوم ہوتی ہے
نہیں ہے وجہ موجیں پر سکوں ہیں بحر ہستی کی
محبت مصطفیٰ کی تہ نشیں معلوم ہوتی ہے
رسول و انبیاء سب ہیں مگر میدان محشر میں
نمایاں شان ختم المرسلیں معلوم ہوتی ہے
دو عالم پر خدا کی رحمت و انعام کی برکھا
بشكل رحمت اللعالمیں معلوم ہوتی ہے
محبت سرور کونین کی عین عبادت ہے
یہی بنیاد ایمان و یقیں معلوم ہوتی ہے
رہی اور آج بھی ہے جلوہ گاہ سرور عالم
یہ دنیا اس لئے ہم کو حسیں معلوم ہوتی ہے
نہ ڈس لے اے ادیب ” اک دن تمنائے حضوری کو
یہ مایوسی تو مارِ آستیں معلوم ہوتی ہے