خدارا اے عازم مدینہ پہونچ کے پیش حضور عالی
بھلا نہ دینا ہمیں کو اس دم ہو جب کہ خیرات بٹنے والی
بھلا نہ دینا ہمیں کو اس دم ہو جب کہ خیرات بٹنے والی
یہ جبر قسمت کے ظلم آخر کہاں تک اسے بیکسوں کے والی
گراں ہے اب تو غریب دل پر ابھرتے جذبوں کی پائمالی
کہاں وہ آداب عشق و مستی کہاں میں اک رند لاو بالی
یہ سب انہیں کا کرم ہے ورنہ کسے ملا جذبۂ بلالی
سلام اخلاص کی صدا پر اٹھے جب ان کی نگاہ رحمت
ادب سے اس وقت عرض کرنا ہمارا حال شکستہ حالی
تمام پنہائے دو جہاں میں بجز مدینے کی وادیوں کے
ہمارے دل کو سکوں کی دولت کہیں نہیں ہاتھ آنے والی
چمک اٹھی قسمت دو عالم کرم کا جب بھی کیا اشارہ
بدل گئی خلد سے جہنم جو رحمتوں کی نگاہ ڈالی
تری تجلی سے سبز گنبد نظام ہستی ہے اک حقیقت
جو تو نہ ہوتا تو بزم عالم تھی صرف اک جنت خیالی
کسی طرح جلوہ زار طیبہ ملے تری دید کی سعادت
اسی کا طالب ہر ایک دل ہے اسی کی ہے ہر نظر سوالی
ہیں جلوہ ہائے دیارِ طیبہ ادیب” ہر سمت آشکارا
ہمارا ذوق نظر انوکھا ہماری شانِ طلب نرالی