مجبوروں کی دنیا میں مختار کی آمد ہے
سرکار کی آمد ہے سرکار کی آمد ہے
بے بات کی جنگوں کا اعلان نہیں ہوگا
انسان کا دشمن اب انسان نہیں ہو گا
ہے خاتمہ نفرت کا اور پیار کی آمد ہے
سرکار کی آمد ہے سرکار کی آمد ہے
اے نجد یوں آقا پر کیوں جاں نہ لٹائیں ہم
بتلاؤ نہ کیوں جشن میلاد منائیں ہم
اس رات میں امت کے غمخوار کی آمد ہے
سرکار کی آمد ہے سرکار کی آمد ہے
سر کیسے نہ جھک جائے مغرور جہالت کا
گھٹ جائے نہ دم کیسے اب کفر کی ظلمت کا
آئینۂ وحدت کے انوار کی آمد ہے
سرکار کی آمد ہے سرکار کی آمد ہے
اپنا ئینگے دنیا میں سب چال و چلن جس کا
رس گھولے گا کانوں میں ہر ایک سخن جس کا
سنسار میں اس شیریں گفتار کی آمد ہے
سرکار کی آمد ہے سرکار کی آمد ہے