وہ جس نے روئے مدار جہاں کو دیکھ لیا
جمال سرورکون ومکاں کو دیکھ لیا
نہ کوئی متقی پایا حضور کے جیسا
زمیں کو دیکھ لیا آسمان کو دیکھ لیا
میں مطمئن ہوں فقط آپ کی نوازش پر
ہے بجلیوں نے مرے آشیاں کو دیکھ لیا
ترے جوار کے ہر ذرۂ درخشاں پر
نثار ہوتے مہ و کہکشاں کو دیکھ لیا
وہیں پہ سجدے کئے ہیں جُنوں کے ماروں نے
جہاں تمہارے قدم کے نشاں کو دیکھ لیا
علاوہ آپ کے سرکار ہم غریبوں کا
نہیں ہے کوئی بھی سارے جہاں کو دیکھ لیا
تڑپ اٹھی جو نظر روضۂ نبی کے لئے
تو میں نے روضۂ قطب جہاں کو دیکھ لیا
پکارا دل نے مدار جہاں کو اے محضر
جو طیبہ جاتے کسی کارواں کو دیکھ لیا