پھولوں کو مہک کلیوں کو رنگت نہ ملیگی
جب تک چمن طیبہ سے نسبت نہ ملیگی
تسکین کی دل کو میرے دولت نہ ملیگی
جب تک در سر کار سے قربت نہ ملیگی
انکار میں اعمال میں جز سیرت آقا
ڈھونڈھے سے بھی ایسی کہیں وحدت نہ ملیگی
سردار عمر سمجھیں بلال حبشی کو
دنیا میں غلاموں کو یہ عزت نہ ملیگی
وہ ظلم سے باز آ گئے صدقے میں نبی کے
جو کہتے تھے مزدور کو اجرت نہ ملیگی
کہتی تھی یہ بیدارئ تقریر علی کی
سو جاؤ کہ پھر یہ شب ہجرت نہ ملیگی
خالی نہ رہے کوئی نفس ذکر نبی سے
موت آئی تو پھر اتنی بھی مہلت نہ ملیگی
اے عظمت سرکار کے منکر یہ سمجھ لے
سرکار نہ چاہیں گے تو جنت نہ ملیگی
مقصود نظر گنبد خضری ہے تو یارب
کیا آنکھوں کو توفیق زیارت نہ ملیگی
مدحت کا نہ جب تک کہ ادیب” آئے سلیقہ
تخئیل کی پرواز کو رفعت نہ ملیگی