کتنا عجیب وصل و فراق رسول ہے
اتنا ہی مختصر بھی ہے جتنا کہ طول ہے
دل میں نہیں جو عکس جمال رسول ہے
آئینہ ہے ضرور مگر نا قبول ہے
مثل اویس رکھتا ہے جو عشق مصطفیٰ
وہ دور بھی رہے تو قریب رسول ہے
خیر الوریٰ کی شان شفاعت تو دیکھیے
ہم عاصیوں پہ رحمت حق کا نزول ہے
دیکھو تو اتباع رسالت کا معجزہ
جو بے اصول تھا وہ بنا با اصول ہے
محنت کا درس دے گئی ہم کو یہ ایک بات
چکی چلانا باعث فخر رسول ہے
مکہ کی راہ بھول کے طیبہ میں آگیا
کتنی حسین کتنی مبارک یہ بھول ہے
کہدو یہ کہکشاں سے مرے پاؤں چوم لے
اب میرے سر پہ پائے رسالت کی دھول ہے
طیبہ بلائیں یا کہ تڑپنے کا حکم دیں
ہر فیصلہ حضور کا مجھ کو قبول ہے
ہے سامنے تو جلوۂ خضری مگر حضور
اب تو نگاہ کو یہ مسافت بھی طول ہے
اپنی زباں سے کاش یہ فرما دیں مصطفیٰ
ہاں یہ ادیب ” بھی مرے قدموں کی دھول ہے