ہاتھ سے شبیر کے جام عطا پانے کے بعد
پیاس حر کی بجھ گئی بس ایک پیمانے کے بعد
کس قدر دشوار ہے جہد عمل کا راستہ
فتح ملتی ہے مگر نیزے پہ چڑھ جانے کے بعد
راستہ پائے گا جنت کا ہر اک مؤمن مگر
حضرت شبیر کی الفت میں کھو جانے کے بعد
کھل گئے تپتی زمیں میں کیسے کیسے لالہ زار
کربلا میں حضرت شبیر کے آنے کے بعد
یہ غم شبیر کی تاثیر تو دیکھے کوئی
مطمئن ہوتی ہیں آنکھیں اشک برسانے کے بعد
مشک بھر کر جو اٹھا لے ایسے نازک وقت میں
اب کوئی شانہ نہیں عباس کے شانے کے بعد
درس ملتا ہے یہ ہم کو اصغر معصوم سے
مسکرانا چاہئے تیر ستم کھانے کے بعد
یہ سمجھ کر حضرت قاسم نے دے دی زندگی
شمع حق پر جان دے گا کون پروانے کے بعد
جاسکے خیمے کے باہر پھر نہ انصار حسین
نورِ ایماں پھیلتا ہے شمع بجھ جانے کے بعد
گھر لٹا کر اپنا ثابت کر دیا شبیر نے
زندگی ملتی ہے محضر حق پہ مٹ جانے کے بعد