ہیں چھائی ایمان کی گھٹائیں سنا رہی ہیں یہ گیت ملکر
جو بکھری کربل میں زلف زینب سنور گیا دین کا مقدر
اسی کے قدموں پہ جان قرباں اسی کے قدموں پہ دل نچھاور
جو سہ گیا دل پہ کر بلا میں ہر ایک ضرب ستم کو ہنس کر
لئے ہیں تشنہ لبی کے خنجر دکھا رہے ہیں وفا کے جوہر
ہیں دیدنی جنگ کے یہ تیور ادھر ہیں لاکھوں ادھر بہتر
اے ظالمو! ظلم ڈھائے ان پر جو ہیں حبیب خدا کے دلبر
بتاؤ کیا منھ دکھاؤ گے تم نبی کو اپنے بروز محشر
تھا دست عباس کا وہ پرچم ہوائے جور و جفا پہ برہم
فضائے کرب و بلا نے دیکھا ہے اپنی آنکھوں سے یہ بھی منظر
عبث ہے باطل کی فتنہ سازی ہے حق کے حصے میں سرفرازی
ہے چڑھ کے نیزے پہ سب سے کہتا حسین کا وہ کٹا ہوا سر
ادا ادا میں ہے بے مثالی ہوئی ہے نادم شفق کی لالی
جو ابن زہرا نے مسکرا کر ملا ہے چہرے پہ خون اصغر
ہے کیسا ” مصباح ” یہ زمانہ ہوا ہے بند ان پہ پانی دانہ
جو تشنہ کاموں کو روز محشر کر ینگے تقسیم جام کوثر