آل پیغمبر کی وہ تشنہ دہانی یاد ہے
کربلا کیا تجھ کو پیاسوں کی کہانی ہے
موجیں لہرا کر اٹھیں اور سر پٹک کر رہ گئیں
تیری مجبوری بھی اے دریا کے پانی یاد ہے
کیوں نہ پھر کہتا ہوا لبیک حر آئے نکل
اس کو وہ آل نبی کی مہربانی یاد ہے
زندگی بھر پیار سے بھائی کو آقا ہی کہا
حضرت عباس کی وہ رتبہ دانی یاد ہے
ہائے وہ پرنور سینہ اور برچھی کی انی
اب بھی دل والوں کو اکبر کی جوانی یاد ہے
بھول بیٹھی ساری دنیا تیرا افسانہ یزید
واقعہ شبیر کا سب کو زبانی یاد ہے
کربلا میں جو فدا شہرت ہوئی شبیر پر
ساری دنیا کو حسن کی وہ نشانی یاد ہے