آپ کا جو غلام ہو جائے
واجب الاحترام ہوجائے
آپ کے آستاں سے دور کہیں
زندگی کی نہ شام ہو جائے
ہو جو کوئی فنائے عشق مدار
اس کو حاصل دوام ہو جائے
نام میں تیرے وہ اثر ہے جسے
سن کے دشمن بھی رام ہو جائے
کیوں نہ قوموں کی جھولیاں بھر جائیں
فیض جب ان کا عام ہو جائے
زمرۂ خاص میں غلاموں کے
کاش اپنا بھی نام ہو جائے
تیری مدحت کرے جو قطب جہاں
وہ بھی عالی مقام ہو جائے
وہ سہارا نہ دیں تو دنیا میں
اپنا جينا حرام ہو جائے
اس جہاں پہ جو ہوں نہ قطب مدار
سارا برہم نظام ہے ہو جائے
یہ تمنا ہے قسمت محضر
ان کی الفت کا جام ہو جائے