چھا گئی ہے ہر طرف غم کی گھٹا
آگیا ماه محرم آگیا آگیا ماه محرم آگیا
غم سے ہے بے چین آج ارض حرم
مضطرب خضرا میں ہیں شاہ امم
کربلا کو چل دیا اک قافلہ
آگیا ماه محرم آگیا آگیا ماه محرم آگیا
دیکھئے پرنم ہے چشمِ کائنات
پانی پانی ہو گئی نہر فرات
پیاس سے سوکھا ہے ننھا سا گلا
آگیا ماه محرم آگیا آگیا ماه محرم آگیا
الاماں شبیر کے وه نورتن
کر گئے قربان اپنے جان و تن
یاد آتی ہے ہمیں حر کی وفا
آگیا ماه محرم آگیا آگیا ماه محرم آگیا
ہر طرف ہیں ظلم کی تاریکیاں
والہانہ دی جو اکبر نے اذاں
گونج اٹھی ہے فضائے نینوا
آگیا ماه محرم آگیا آگیا ماه محرم آگیا
شام ہوتے سارے خیمے جل گئے
چل بسے سب ایک عابد ہیں بچے
چھن گئی زینب کے سر سے بھی ردا
آگیا ماه محرم آگیا آگیا ماه محرم آگیا
غم سے بوجھل زینب دلگیر ہے
پائے عابد میں پڑی زنجیر ہے
اور نیزے پر ہے سر شبیر کا
آگیا ماه محرم آگیا آگیا ماه محرم آگیا
ہے یہی “مصباح ” کے دل کی پکار
کردے اس پر اپنا تن من دھن نثار
جس کو آقا نے کہا منّیِ اَنا
آگیا ماه محرم آگیا آگیا ماه محرم آگیا