اب دل کی تمنا ہے مدینے کی طرف چل
اک حشر سا برپا ہے مدینے کی طرف چل
دنیا ستم آرا ہے مدینے کی طرف چل
کوئی نہیں اپنا ہے مدینے کی طرف چل
روضہ کا وہ سرکار کے پر نور نظاره
نظروں میں مچلتا ہے مدینے کی طرف چل
اس در پہ سکوں پائے گا کیوں اے دلِ مضطر
دنیا میں بھٹکتا ہے مدینے کی طرف چل
دنیا کے نظاروں سے بہلتا ہی نہیں دل
نظروں کا تقاضہ ہے مدینے کی طرف چل
ہر سمت سے آتی ہیں درودوں کی صدائیں
ماحول کا منشاء ہے مدینے کی طرف چل
کیوں محضر علی خانۂ صابو میں پڑا ہے
آقا نے بلایا ہے مدینے کی طرف چل