اتنا اثر ہو کاش ہماری دعاؤں میں
ہم دیکھیں خود کو گنبد خضرا کی چھاؤں میں
ساتھ اپنے لیکے آیا اجالے حرا کا چاند
دنیا بھٹک رہی تھی اندھیری گپھاؤں میں
اس رحمت تمام کے قربان جائیے
جس نے لگا دی آگ ستم کی چتاؤں میں
کتنا اثر تھا سوز بلائی میں الاماں
اب تک اذان گونج رہی ہے فضاؤں میں
ساون ہو پانی پانی بھلا کیوں نہ شرم سے
دیکھے جو تیری زلفوں کی رنگت گھٹاؤں میں
گل مسکرا کے کرتا ثنائے رسول ہے
نعت نبی ہے پڑھتا پپیہا فغاؤں میں
رکھ لیجیے گا حشر میں “مصباح ” کا بھرم
اسکی حیات گزری ہے آقا خطاؤں میں