اتنی ہی میری عرض ہے اتنی ہی التجا فقط
حشر کے دن حضور دیں اپنا مجھے بتا فقط
فرش زمین پر رہے جتنے تھے انبیاء فقط
عرش کے میہماں بنے احمد مجتبی فقط
عالم مفلسی میں تھا کوئی نہ میرا آسرا
مجھ کو حضور نے دیا جینے کا حوصلہ فقط
دیکھے تو کوئی یہ ذرا شان حبیب کبریا
جسم پہ سادہ سی عبا دوش پہ اک ردا فقط
منزل عرش و فرش میں اچھی لگی نہ کوئی جا
دل کو پسند آگیا طیبہ کا راستہ فقط
ناز عبادتوں پہ وہ اپنی کرے نہ کس لئے
جسکی جبیں یہ ثبت ہو آپ کا نقش پا فقط
سارے جہاں کی نعمتیں دے کہ نہ دے مجھے خدا
عشق مگر عطا کرے قلب بلال کا فقط
جلوۂ گیسوئے نبی زلفِ رسول ہاشمی
میرے جنونِ عشق کا تجھ سے سے ہے سلسلہ فقط
کوئی نہیں جہان میں جو دے سکے آسرا ادیب”
سب کی گزارشات کو سنتے ہیں مصطفى فقط