اسی امید میں اپنی بسر اب زندگی ہوگی
کبھی تو وہ بلائیں گے کبھی تو حاضری ہوگی
مری آہیں صبا لیکر مدینے جب گئی ہوگی
تو شانِ رحمۃ للعالمینی جھوم اٹھی ہوگی
رخ و الشمس کی توصیف پوچھو خالق کل سے
کہوں گا میں تو توہین جمال یوسفی ہوگی
یقیں کب تھا یہ باطل کو اندھیرے مٹ ہی جائیں گے
عیاں فاران کی چوٹی سے ایسی روشنی ہوگی
انہیں آخر میں یوں بھیجا کہ تھا علم مشیت میں
یہ دنیا ایک دن محروم امن و آشتی ہوگی
سدا وحشت رہے پابند صحرا کیا ضروری ہے
جنوں اب ہو گا میرا اور مدینے کی گلی ہوگی
کھلیں گے عاصیوں پر بھی دریچے باغ رضواں کے
مشیت ناز بردار رسول ہاشمی ہوگی
جلو میں کاروانِ اہلِ الفت لیکے آئیں گے
قیامت میں عجب شانِ علامانِ نبی ہوگی
یہ کہکر نکلی قید جسم سے روح ادیب ” آخر
فضائے ارض طیبہ میرا رستہ دیکھتی ہوگی