اس کی کتاب زیست کا لوگوں ہر اک باب سنہرا ہے
جس کے مقدر کی تختی پر شہر مدینہ لکھا ہے
پیٹ پہ اپنے باندھے ہے پتھر اور بھوکوں کو کھلاتا ہے
حیرت ہے دنیا والوں کو یہ کس شان کا داتا ہے
میں اس کا ہوں جس کے اشارے پر سورج اور چاند چلے
ہوش میں آ اے گردش دوراں تو نے مجھے کیا سمجھا ہے
ہم کو بتاتی ہے یہ بلال حبشی کی تابندہ حیات
دونوں جہاں میں اس پہ نچھاور جو بھی نبی کا شیدا ہے
طائف کے بازار سے جا کر پوچھو وہ بتلائے گا
میرا نبی ایسا ساون ہے جو رحمت برساتا ہے
دیکھو ذرا یہ کون گیا ہے سوئے فلک معراج کی رات
فرش زمیں سے عرش بریں تک چاروں سمت اجالا ہے
قبر میں میرے سامنے میری امیدوں کا حاصل تھا
پوچھ رہے تھے مجھ سے فرشتے دیکھو یہ کس کا چہرہ ہے
حشر کی تپتی دھوپ کا ہم کو کیا خطرہ ” مصباح ” ولی
جب ان کے دامان کرم کا سر پہ ہمارے سایہ ہے