اللہ اللہ کیا تری عظمت شہ لولاک ہے
ذہن قاصر عقل ششدر حیرتی ادراک ہے
چومتا ہے اپنی پلکوں سے ترے ذرات در
تیرا دیوانہ بھی آقا کس قدر چالاک ہے
حشر کا دن ہے ہر اک چہرے پہ ہے دہشت کا راج
ان کے دامن کے تلے جو ہے وہی بے باک ہے
کچھ نہیں ہے آپ کے قدموں پر کرنے کو نثار
اک شکستہ دل ہی آقا بس میری املاک ہے
اس کی عظمت کا ترانہ گارہے ہیں دو جہاں
وجہ تخلیق دو عالم جس کی ذات پاک ہے
بھول جاتا ہے نظر پڑتے ہی ہر اک اپنا غم
گنبد خضرا کا منظر کتنا فرحت ناک ہے
المدد نور مجسم اے شفیع المذنبیں
قبر کا تاریک منظر کتنا وحشت ناک ہے
کس قدر روشن ہے اے ” مصباح ” طیبہ کی زمیں
جس کا ذرہ ذرہ پہنے نور کی پوشاک ہے