غم کے طوفاں میں ہے مری کشتی
المدد یا حسین ابن علی
اے جگر گوشۂ حبیب خدا
تجربہ ہے یہ ہم غریبوں کا
کہہ دیا جب تو ہر بلا ہے ٹلی
المدد یا حسین ابن علی
چاہتا ہو جو ہر مرض سے شفا
جس کو گھیرے ہوئے ہوں رنج و بلا
چومے تصویر تیرے روضے کی
المدد یا حسین ابن علی
میں ہوں کیا اور مری بساط ہی کیا
ہے وظیفہ تمام ولیوں کا
کہہ رہا ہے یہی ہر ایک ولی
المدد یا حسین ابن علی
مجھ کو گھیرے میں ظلم کے طوفاں
میں ہوں مظلوم ہنس رہا ہے جہاں
دے رہا ہوں دہائی میں تیری
المدد یا حسین ابن علی
کربلا میں بھی پہنچوں اے آقا
دیکھ لوں آپ کا حسیں روضہ
پوری ہو جائے یہ مراد دلی
المدد یا حسین ابن علی
اس کو گھیرے ہوئے ہیں غم آقا
کردو “مصباح ” پر کرم آقا
اس کے دل کو بھی ہو نصیب خوشی
المدد یا حسین ابن علی