اپنا وہ اعجاز مجھ کو بھی دکھا دو مصطفیٰ
میں بھی پتھر ہوں مجھے کلمہ پڑھا دو مصطفیٰ
یہ تو میں کہتا نہیں تم مجھ کو کیا دو مصطفیٰ
ہاں مگر اتنا مجھے اپنا بتا دو مصطفیٰ
مردہ دل لوگوں کو جس نے بخش دی تازہ حیات
وہ حدیث زندگی کیا ہے سنادو مصطفیٰ
ہیں تمہارے ہاتھ میں سارے خزانے غیب کے
تم جو چاہو فیض کے دریا بہا دو مصطفیٰ
ہر طرف شور تلاطم ہر طرف موج بلا
میری کشتی کو کنارے پر لگا دو مصطفیٰ
ہو نہ جاؤں زندگانی کی کشاکش کا شکار
نا امیدی میں گھرا ہوں حوصلہ دو مصطفیٰ
اس پہ بھی ہو جائے شاید رحمت حق کا نزول
کنج دل کو وسعت غار حرا دومصطفی
سر بلندی ملتی ہے پتھر شکم پر باندھ کر
شان سے غربت میں جینے کی ادا دو مصطفیٰ
نور خضرا کی طرف ہے تک رہا کب سے ادیب”
شمع الفت اس کے سینے میں جگادو مصطفیٰ