اک بھکاری بن کے آیا چاند بھی طیبہ میں ہے
جانے کتنی ضوفشانی گنبد خضرا میں ہے
مل رہا آنکھیں ہے تلووں سے رسول پاک کے
کس قدر رتبہ شناسی طائر سدرہ میں ہے
اب نہیں ملتا ہے گل گشت چمن میں کوئی کیف
ارض طیبہ دلکشی کتنی تیرے صحرا میں ہے
نعت پاک مصطفی سے بیر ناداں دیکھ تو
نعت پاک مصطفی یاسین میں طہ میں ہے
آمنہ کی گود میں ہیں رحمت للعالمیں
شور برپا آج ظلم و جبر کی دنیا میں ہے
مضطرب ہیں کیوں یہ موجیں ماہیے بے آب سی
فرقت طیبہ کا غم شاید دل دریا میں ہ
کہتی ہے ” مصباح ” سے بکھری ہوئی یہ کہکشاں
دیکھ تو کتنی چمک آقا کے نقش پا میں ہے