اک تحفۂ نایاب ہے خالق کی نظر میں
وہ سجدہ کیا ہے جو تری راہ گزر میں
ممکن نہ ہو ادراک تری ذات کا اب تک
ہونے کو تو یوں کیا نہیں امکان بشر میں
سب پر تو روئے شہ بطحا کا ہے صدقہ
ورنہ یہ تحلی کہاں انوار سحر میں
یہ ہجر غم عشق محمد سے ہیں نکلے
آنسو ہیں کہ موتی ہیں مرے دیدۂ تر میں
اے یاد مدینہ ترا صدقہ ہے کہ ہر دم
اک تازہ کسک پاتا ہوں میں قلب و جگر میں
اے سختیئ منزل میں گلے تجھ کو لگاتا
مل جاتی کہیں تو جو مدینے کے سفر میں
نکلی تو ہے ہجر شہ بطحا میں تو اے آہ
اللہ کرے ڈوب کے نکلی ہو اثر میں
ہے سامنے آنکھوں کے مرے گنبد خضرا
یا جلوے سمٹ آئے ہیں دامان نظر میں
کہتے ہیں اسی کو تو ادیب” اصل اطاعت
بس نام خدا رہ گیا صدیق کے گھر میں