اک پل نہیں گوارہ ہے فرقت حسین کی
کس درجہ ہے رسول کو چاہت حسین کی
پایا جو دوش صاحب معراج پر سوار
حیراں ہے عرش دیکھ کے رفعت حسین کی
سب کچھ لٹا کے صبر کا دامن نہ چھوڑنا
زینب سے تھی بس ایک وصیت حسین کی
ان کو ہوئے شہید زمانہ گزر گیا
لیکن ہے روح و جاں پہ حکومت حسین کی
کربل ہے لالہ زار شہیدوں کے خون سے
محفل سجائے بیٹھی ہے خلوت حسین کی
احساس ان کو بے پدری کا نہ ہونے پائے
زینب ترے سپرد امانت حسین کی
“مصباح ” ہو گا اس سے بڑا کیا کوئی ستم
زینب سے چھن گئی ہے رفاقت حسین کی