اگر تقدیر میں طیبہ نہیں ہے
تو پھر جینا کوئی جینا نہیں ہے
خزانہ ہاتھ میں پتھر شکم پر
کوئی اس شان کا داتا نہیں ہے
یہی کہتا ہے قرآن الہی
دو عالم میں کوئی تم سا نہیں ہے
ہے وابستہ رسول محترم سے
ہماری زندگی دھوکا نہیں ہے
نبی کے حسن سیرت کے علاوہ
کوئی صدیق کو بھاتا نہیں ہے
میر ہے جسے عشق رسالت
پھر اس کے پاس لوگو! کیا نہیں ہے
بلاتے ہیں مجھے طیبہ میں آقا
حقیقت ہے کوئی سپنا نہیں ہے
کسی غم سے طفیل عشق احمد
مرا چہرہ کبھی اترا نہیں ہے
ہے یاد سرور عالم کی ہلچل
ہمارے دل میں سناٹا نہیں ہے
ہے اس کی رحمتوں کا سب پہ سایہ
وہ جس کے جسم کا سایہ نہیں ہے
تو ہے “مصباح” کیوں اتنا پریشاں
ترا آقا مجھے بھولا نہیں ہے