اے باد صبا ہو جو مدینے میں حضوری
کہنا مرے سرکار سے حال غم دوری
دیدار کی حسرت اگر ہو پائی نہ پوری
حالِ دلِ بیتاب کو ہوگی نہ صبوری
ہو اور فزوں اور فزوں شوق حضوری
حسرت وہی حسرت ہے جو ہو پائے نہ پوری
اے رحمت عالم تری اس شان کے صدقے
پھیلائے ہیں دامن سبھی ناری ہوں کہ نوری
آجائیں دم نزع جو بالیں پہ محمد
ہو جائے مکمل جو کہانی ہے ادھوری
بس ایک ترے دم سے مجھے جذب تصور
ہو جائے گی حاصل در احمد پہ حضوری
کرنے کے لئے ذکر شفاعت کا زباں سے
ہے اشک ندامت سے وضو کر نا ضروری
جب بعد اجل روح کے ضامن ہیں محمد
پھر کیا ہے ادیب” آپ کو یہ دَور عبوری