اے دائی حلیمہ تری تقدیر بھی کیا ہے
آغوش میں تیری شہ لولاک لما ہے
بتلاؤ کہ ایسا بھی کوئی راہنما ہے
آلودۂ خوں جسم ہے ہونٹوں پہ دعا ہے
جب سے تیرا دامن میرے ہاتھوں کو ملا ہے
لہراتے میری کشتی سے ہر موج بلا ہے
طیبہ یہ کرم نور مجسم کا ہے تجھ پر
ہر ذرہ ترے اوڑھے ہوئے نوری روا ہے
ہے کا ہکشاں کس کا یہ ہر نقش کف پا
دیکھو تو سوئے عرش بریں کون گیا ہے
کیوں رفعت کو نین نہ ہو ان پہ نچھاور
جبریل نے جن تلووں سے آنکھوں کو ملا ہے
لہراتے سر عرش میں سرکار کے گیسو
یا چھائی گنہ گاروں پہ رحمت کی گھٹا ہے
اس کو نہ ستائیں گے مقدر کے اندھیرے
“مصباح” کے دل میں غم محبوب خدا ہے