بروز حشر جب دیں گے حساب اول سے آخر تک
غلام ان کے رہیں گے کامیاب اول سے آخر تک
یہ سمجھے جب پڑھا ہر ایک باب اول سے آخر تک
ہے مدح مصطفی ام الکتاب اول سے آخر تک
پئے انسانیت معیارِ کردار و عمل ٹھہرا
رسول اللہ کا عہد شباب اول سے آخر تک
کسی شعبے کو دیکھو کار گاہ زندگانی میں
حیات مصطفیٰ ہے لا جواب اول سے آخر تک
نگاہ عارفاں خیرہ ہے اب تک کیا قیامت ہو
جو ذات مصطفیٰ الٹے نقاب اول سے آخر تک
خدارا اک نظر پھیلا ہوا ہے میری دنیا میں
اندھیرا اے حرا کے آفتاب اول سے آخر تک
مہد سے تالحد ان کی غلامی مانگ لی میں نے
ہے یکتا میر احسن انتخاب اول سے آخر تک
نگاه سرور کونین کا مرہون منت ہے
یہ دنیائے عمل کا انقلاب اول سے آخر تک
حضور آئے تو ذوق جلوہ جا گا لیکے انگڑائی
تجلی تھی حجاب اندر حجاب اول سے آخر تک
نہیں تحریر اس میں نام احمد کے سوا کچھ بھی
ہے سادہ میری ہستی کی کتاب اول سے آخر تک
سرِ بالیں تھے حضرت اور تڑپ کر جان دی میں نے
حقیقت کاش بن جائے یہ خواب اول سے آخر تک
اجازت ہو تو اے سرکار حاضر ہو کے خدمت میں
سنائیں اپنا ہم حال خراب اول سے آخر تک
بجز مدح نبی جتنے عمل تھے رائیگاں نکلے
“ادیب” اپنا کیا جب احتساب اول سے آخر تک