بس گئی خضری کی تصویر مری آنکھوں میں
ہے مرے خواب کی تعبیر مری آنکھوں میں
چاہوں جب گنبد خضری کا نظارا کر لوں
کاش پیدا ہو وہ تاثیر مری آنکھوں میں
دیکھا جب گنبد خضری تو یہ محسوس ہوا
جیسے ہو حسن کی جاگیر مری آنکھوںمیں
اب پھٹکتا ہی نہیں پاس مرے رجس گناہ
دیکھ کر نقشہ تطہیر مری آنکھوں میں
یہ عمر کہتے ہیں کیسے نہ کہوں میں آقا
ہے بلال آپ کی توقیر مری آنکھوں میں
یہ کہیں ناوک دیدار مدینہ تو نہیں
چھتا رہتا ہے کوئی تیر مری آنکھوں میں
سلسلہ عشق رسالت سے ہے جس کا محضر
آنسؤوں کی ہے وہ زنجیر مری آنکھوں میں