بچپن کا جو وعدہ تھا وہ وعدہ نبھاتے ہیں
سردے کے حسین اپنا اسلام بچاتے ہیں
اے ظالمو! سوچو تو ان پر ہو ستم ڈھاتے
راہوں میں ملک جن کی پلکوں کو بجھاتے ہیں
پورا وہی کرتے ہیں ایماں کے تقاضوں کو
کربل کے شہیدوں پر جو جان لٹاتے ہیں
جو کرب و بلا تیری گودی میں ہیں آسودہ
سوئی ہوئی قسمت وہ اک پل میں جگاتے ہیں
ہر ایک خوشی ان کے قدموں پر نچھاور ہے
جو کر بلا والوں کا غم دل سے مناتے ہیں
جھک جاتا ہے غیرت سے وہ اوج فلک جس دم
شہ لاشہ اکبر کو کاندھوں پہ اٹھاتے ہیں
ہم شیر خدا والے ڈرتے نہیں دنیا سے
نادان ہیں وہ شاید جو ہم کو ڈراتے ہیں
جو ساتھ نہ دے پائے بے خوف چلا جائے
یہ کہکے چراغوں کو شبیر بجھاتے ہیں
” مصباح ” لرزتے ہیں باطل کے محل اس دم
هم نام حسینی کا جب نعرہ لگاتے ہیں