بگڑا ہوا بنتا ہے ہر کام مدینے میں
پائیگا دل بسمل آرام مدینے میں
پائیگا دل بسمل آرام مدینے میں
اے گردش روز و شب اتنا تو کرم کر دے
کعبے میں سحر گزرے اور شام مدینے میں
قسمت کے دھنی وہ ہیں جو دیکھ کے آئے ہیں
پھیلے ہوئے انوار اسلام مدینے میں
جو موت کہ آنی ہے بے نام و نشاں کرنے
وہ موت ہے جینے کا پیغام مدینے میں
تسلیم کہ ہے بیشک آغاز بر الیکن
ہوگا مری ہستی کا انجام مدینے میں
ملتی ہے جسے پی کر صدیقی ، وفاروق
آؤ نہ پئیں چل کر وہ جام مدینے میں
جو کفر سمجھتے ہوں تعظیم محمد کو
کہدے کوئی ایسوں کا کیا کام مدینے میں
دیوار و در مکہ ہیں ساتھ محمد کے
کعبے نے بھی باندھا ہے احرام مدینے میں
آیا ہے ادیب ” اپنے الزام جنوں سر پر
اے کاش یہ سر آتا الزام مدینے میں