بھرے آنکھوں میں آنسو ہیں لگے ہونٹوں پہ تالے ہیں
جوار گنبد خضرا ترے منظر نرالے ہیں
فروزاں ہے چراغ عشق احمد میرے سینے میں
مری راہوں میں ہر جانب اجالے ہی اجالے ہیں
زمیں سے آسماں تک ہر طرف ہے نور کی برکھا
یہ لگتا ہے کہ سرکار دو عالم آنے والے ہیں
مری خوش قسمتی پر کہکشاں بھی رشک کرتی ہے
رہ طیبہ کے کانٹے اور مرے تلووں کے چھالے ہیں
فضائیں مہکی مہکی ہیں ہوائیں بہکی بہکی ہیں
مئے عشق رسالت کے کسی نے جام اچھالے ہیں
اسی کی رحمتیں ہم پر گھٹائیں بن کے چھائی ہیں
تنے جس کی حفاظت کے لئے مکڑی کے جالے ہیں
نہ جانے شدت غم سے یہ کب کا چور ہو جاتا
تیری یادیں ہی بس آقا مرے دل کو سنبھالے ہیں
ہیں اس جانب عمر تو اس طرف صدیق ہیں “مصباح”
لیے حلقے میں اپنے چاند کو دونوری ہالے ہیں