بیاں کیسے بھلا اس کا کمال حسن سیرت ہو
جو آقائے دو عالم ہو کے بھی تصویر غربت ہو
حبیب حق تمہیں جب شافع روز قیامت ہو
تو پھر بد بخت ہی ہے وہ جو محروم شفاعت ہو
نہ کیوں وہ ذات عالی محسن کون و مکاں ٹھہرے
جو ہر عالم میں ہر اک دور میں رحمت ہی رحمت ہو
وہی بتلا سکے گا منتہائے بندگی کیا ہے
وہ جس کی ہر ادائے زندگی روح عبادت ہو
تمہارے اختیار و مرتبت کا پوچھنا ہی کیا
زباں سے جو نکل جائے وہی حکم مشیت ہو
تلاش منزل حق کس قدر آسان ہو جائے
عطا ہم کو اگر سلمان کی چشم بصیرت ہو
جلائے آتش دوزخ اسے یہ غیر ممکن ہے
بسی جس دل میں سرکار دو عالم کی محبت ہو
بہار گلشن طبیبہ کبھی ہو جس کی قسمت میں
” ادیب ” اس کو بھلا کیوں آرزوئے باغ جنت ہو