بے سہارا تھے ہم آسرا مل گیا
یعنی دامان خیر الورى مل گیا
اب کسی رہنما کی ضرورت نہیں
مجھ کو سرکار کا نقش پا مل گیا
میری آوارہ پائی ہوئی مطمئن
جب سے شہر حبیب خدا مل گیا
کم ہے جو ناز قسمت پہ امت کرے
باعث نازش انبیاء مل گیا
کیا کہے بد نصیبی ابو جہل کی
کوئی پوچھے عمر سے کہ کیا مل گیا
سو گئے مطمئن ہو کے شیر خدا
جب انہیں بستر مصطفیٰ مل گیا
ہیں غریبوں کی جھرمٹ میں جلوہ فگن
ہم کو آقا کا محضر پتہ مل گیا