تجس میکدے کا ہے تمنا ہے نہ پینے کی
مرے ہمدم کئے جا مجھ سے بس باتیں مدینے کی
بچھونا ہے چٹائی کا شکم پر ہیں بندھے پتھر
غریبوں کو ادا سکھلا گئے سرکار جینے کی
ترے چہرے کی تابانی سے مہر و ماہ روشن ہیں
دو عالم کو معطر ہے کئے خوشبو پسینے کی
مشام جان و دل اپنے معطر کرتے رہتے ہیں
گلابوں میں بھی ہے خوشبو محمدؐ کے پسینے کی
بلائے موج غم نے ہر طرف سے گھیر رکھا ہے
خدا را آبرو رکھ لیجئے میرے سفینے کی
نبی سے پایا ہے سینہ بسینہ جو بزرگوں نے
ہمارے سینے میں بھی آرزو ہے اس دینے کی
ہے اس میں سرور عالم کی الفت کی مہک محضر
کوئی قیمت لگائے اب مرے دل کے نگینے کی