تری رفعتوں کو سمجھ سکے یہ کہاں کسی کی مجال ہے
ترے قرب حق کا شعور بھی پئے جبرئیل محال ہے
ترے قرب حق کا شعور بھی پئے جبرئیل محال ہے
نہ یہ بات حسن طلب کی ہے نہ یہ آرزو کا کمال ہے
یہ انھیں کی نسبت خاص ہے کہ نہ غم نہ فکر مال ہے
زہے عشق سرور انبیاء یہ نوازشات کی انتہا
وہ ہے مصطفیٰ سے قریب تر جو اسیر زلف ہلال ہے
تو رؤف ہے تو رحیم ہے پئے دشمناں بھی کریم ہے
تو کمال خلق عظیم ہے تو خود آپ اپنی مثال ہے
جو ورود ذات نبی ہوا تو حقیقتوں سے حجاب اٹھا
تھا یہ پہلے ذہن کا فیصلہ کہ جہاں طلسم خیال ہے
ترے فقر میں ہے وہ دلبری کہ نثار تجھ پہ ہے سروری
جھکی جس کے قدموں پہ قیصری وہ تراہی جاہ و جلال ہے
تری انگلیوں کا یہ بانکپن کہ ہیں دستۂ گل پنجتن
ہے تراشانا خن پاک کا جو فلک پہ شکل ہلال ہے
وہ جوار خالق دو جہاں یہ دیار شافع عاصیاں
وہاں کبریا کا جلال ہے یہاں مصطفیٰ کا جمال ہے
ہے ادیب” خاک بسر مگر یہ ہے شان ان کے غلام کی
نہ جھکائے ہے کسی در پہ سر نہ اٹھائے دست سوال ہے