جب بڑے گنبد خضری پر نظر کہہ دینا
میرے آقا سے مرا حال جگر کہہ دینا
میری مجبوریاں دیدیں کبھی مہلت آقا
دیکھ لوں میں بھی کبھی طیبہ نگر کہہ دینا
جاؤں گا حشر میں کس منہ سے میں آقا کے حضور
بس یہی فکر ہے اب شام و سحر کہہ دینا
آپ کے در سے جدا ہو کے بری حالت ہے
دل ہے ٹوٹا ہوا زخمی ہے جگر کہہ دینا
خواب میں دیکھا ہے جس روز سے خضری کا جمال
بہہ رہے ہیں مری آنکھوں سے سے گہر کہہ دینا
گزری اک عمر ہے حالات سے لڑتے لڑتے
اب تو مل جائے مجھے غم سے مفر کہہ دینا
سامنے آنکھوں کے ہو گنبد خضری کا جمال
ختم ہو جب مری ہستی کا سفر کہہ دینا
یہ گزارش ہے کہ ہم درد کے ماروں کا سلام
جا کے سرکار سے بادیدہ تر کہہ دینا
پاس آداب سے مل جاتے ہیں لب طیبہ میں
مجھ کو معلوم ہے یہ پھر بھی مگر کہہ دینا
اپنے ” مصباح ” کو تم بھول نہ جانا آقا
چوم کر سرور کونین کا در کہہ دینا