جس دن سے خضر ا د یکھا ہے
ہر منظر پھیکا لگتا ہے
چاند تیرے در کا منگتا ہے
طیبہ تیرا کیا کہنا ہے
زاف شفیع حشر کے آگے
شرمندہ ساون کی گھٹا ہے
آمنہ ان بی بی کی گودی میں
جلوہ فگن محبوب خدا ہے
نوری بدن ہے خون سے رنگیں
پھر بھی ترے ہونٹوں پہ دعا ہے
چوم کے خاک ارض مدین
اترائی قسمت پہ ہوا ہے
قبر میں ظلمت کا ڈر کیسا
سامنے آقا کا چہرہ ہے
مدثر مزمل تو ہی
تو ہی یاسین و طہ ہے
آپ سراپا ایک حقیقت
دنیا دھوکا ہی دھوکا ہے
میں اور نعت پاک رسالت
بات بڑی ہے منہ چھوٹا ہے
مانگ لے اے ” مصباح ” جو چاہے
جوش میں رحمت کا دریا ہے