جلوہ ذات محمد سے شناسائی ہو
میری آنکھوں میں جو صدیق کی بینائی ہو
میری آنکھوں میں جو صدیق کی بینائی ہو
حسن تخلیق کا شہکار وہ کیسا ہوگا
حق نے جس کے رخ و گیسو کی قسم کھائی ہو
ذات خالق نے کیا اسلئے سائے کو جدا
میرے محبوب کے پیکر میں بھی یکتائی ہو
شمع حسان سے روشن ہوں مرے دل کے چراغ
ان کی جانب سے اگر حوصلہ افزائی ہو
ہم سے مہجورِ مدینہ پہ کرم تو دیکھو
درد بھی ہو تو بہ اندازِ شکیبائی ہو
یہ تمنا کبھی اے کاش حقیقت بنجائے
ہم مدینے میں ہوں رحمت کی گھٹا چھائی ہو
سوز دل قلب اویس قرنی سے مانگو
آتش عشق اگر سینے میں کجلائی ہو
ہم غریبوں کے ہیں غمخوار مدینے والے
اے جہاں والو ! سمجھ کر ستم آرائی ہو
حق کے محبوب ہیں رکھ لیں گے بھرم حشر کے دن
ان کے ہوتے مری کیوں حشر میں رسوائی ہو
چل تجھے یاد کیا ہے ترے آقانے ادیب”
کاش پیغام یہ طیبہ سے صبا لائی ہو